اخوان المسلمین پر غصہ
سعودی عرب کی جانب سے اخوان المسلمین کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا فیصلہ کسی کے لیے حیرانی کا سبب نہیں، انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے چلنے والی ہر تحریک، حتیٰ کہ جمہوریت کے حامی سمجھی جانے والے اسلامی گروہوں کی تحریکوں سے بھی، قدامت پسند سعودی بادشاہت خوفزدہ ہے۔
اخوان المسلمین کا اپنا ایک ایجنڈا ہوسکتا ہے اور اس کے منشور کو متروک شدہ بھی خیال کرسکتے ہیں لیکن جب جماعت نے حسن البنہ کو سربراہ منتخب کیا تو ظاہر ہوگیا کہ وہ انتخابی عمل کے ذریعے اقتدار کے حصول پر انحصار کرتی ہے۔
پھر، محمد مُرسی کی زیرِقیادت فوجی بغاوت کے ذریعے اخوان المسلمین کی منتخب حکومت کو نکال باہر کرنے کے قدم کا سعودی عرب نے خیر مقدم کیا تھا۔
سعودی عرب صرف اکیلا ہی نہیں: حالیہ دنوں میں دیکھا گیا کہ خلیج کی دو اور بادشاہتوں، متحدہ عرب امارات اور بحرین، نے قطر سے اپنے سفارتکاروں کو واپس بلالیا، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ قطر مصر میں غلط گھوڑے کی پشت پناہی کررہا ہے۔
بالخصوص ایسے میں کہ جب عرب میں اٹھنے والی تحریکوں کے اندر بادشاہت کی کوئی گنجائش موجود نہیں، جمعہ کو سعودی عرب کی طرف سے عائد پابندی کو بھی مشرقِ وسطیٰ میں بادشاہت کو لاحق خطرات سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھنا چاہیے۔
سچ تو یہ ہے کہ عرب موسمِ بہار کی انقلابی تحریک سے سعودی عرب سخت نالاں ہے اور اسے نہایت تاخیر سے یہ احساس ہوا کہ شام سے متعلق اس کی پالیسیوں کا اثر الٹا ہوچکا۔
جمعہ کو عائد پابندی میں چار دیگر گروپوں کو بھی لپیٹ دیا گیا ہے، ان میں سعودی عرب کے اندر اب تک گمنام حزب اللہ کا ایک باب، شمالی یمن میں سرگرم ایک شیعہ عسکریت پسند گروہ اور شام کے دو 'جہادی' گروپ بھی شامل ہیں۔
ان میں سے ایک القاعدہ سے منسلک نصرہ محاذ اور دوسرا اسلامی ریاست عراق و بحیرہ روم ہے۔ یہ دونوں گروپ نہ صرف شامی فوج بلکہ دیگر عسکریت پسند تنظیموں سے لڑ رہے ہیں۔
امریکا کی طرح سعودی عرب بھی یہ تسلیم کرچکا کہ ایران مخالف محاذ رکھنے کے لیے ان گروپوں کی حمایت ناگزیر نہیں، اگر جنگ کا رخ اس کی طرف مڑگیا تو پھر یہ خود اس کی اپنی بادشاہت کے لیے خطرہ ثابت ہوں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ اب مشرقِ وسطیٰ کے خطے پر اثر رکھنے والی حکومتوں کو داخلی اور علاقائی پالیسیوں پر ازسرِ نو غور و فکر کی ضرورت ہے۔ عرب موسمِ بہار کی انقلابی لہر نے بنیادی اصولوں پر نظر ثانی کا مطالبہ طے کردیا ہے۔
سیاسی تحریکیوں پر پابندی یا عسکریت پسندوں کو بطور کرائے کا سپاہی استعمال کرنا، اب موثر ثابت نہیں ہوگا، ایسا کرنے کے نتیجہ اُلٹا ہی نکلے گا۔
اس سے پہلے کہ کہیں بہت زیادہ دیر نہ ہوجائے، ان حکومتوں کو اپنے ملکوں اور سماج کو آزادی اور مخالفین و عوام کو گنجائش فراہم کرنے کا عمل شروع کردینا چاہیے۔