پاکستانی عورت کی طالبانآئزیشن
8 مارچ کو ہر سال دنیا عورتوں کا بین الاقوامی دن مناتی ہے- اس دن کو مناتے ہوئے ایک صدی سے زیادہ گزر گئی، عورت کی مظلومیت دنیا کی توجہ کا مرکز بنی اور اسے جینے کا حق دینے کی جدوجہد شروع ہوئی-
یہ تحریک نشیب و فراز سے گزرتی ہوئی اکثر ملکوں میں اتنی مضبوط ہوچکی ہے کہ ترقی کے دھارے کو روکنا تقریباً ناممکن ہے- ترقی یافتہ ملکوں میں تو اب اس کے قدم آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں- آج بھی وہ عزت کے نام پر قتل کردی جاتی ہے، اس کا مول تول ہوتا ہے، پڑھنے کا حق مانگنے پر اسے گولی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اس کے اسکول اور کالج بموں سے اڑا دیئے جاتے ہیں، غرض کہ زندگی کا دائرہ اس کے لئے تنگ سے تنگ کیا جارہا ہے-
اس بات کا تجربہ افغانستاں اور پاکستان کی عورت سے زیادہ اور کسے ہوگا-
مسلمان ملکوں میں، جہاں اسلام میں عورت اور مرد کی مساوات کا ذکر بڑے فخر سے کیا جاتا ہے، دیکھا جائے تو عملی طور پر یہ مساوات زندگی کے کسی گوشے میں نظر نہیں آتی-
سعودی عرب کی عورت نہ تو گاڑی چلاسکتی ہے اور نہ ہی اس امتیازی سلوک پر آواز بلند کرسکتی ہے، محرم کے بغیر ڈاکٹر کے پاس نہیں جاسکتی، اسکول کی عمارت میں آگ لگ جائے تو بچّیاں اس لئے جل کر مرجاتی ہیں کہ انھیں نکالنے کے لئے کوئی محرم موجود نہیں، بیمار لڑکی کالج میں اس لئے دم توڑ دیتی ہے کہ پھر وہی محرم اور نامحرم کا سوال کھڑا کردیا جاتا ہے- خلیجی ریاستوں میں صورت حال کسی قدر مختلف ہے لیکن وہاں کی مقامی عورت کس حد تک آزاد ہے اس کے اعداد و شمار نہیں ملتے-
افغانستان تو انتشار کے جس دور سے گزر رہا ہے، جہاں کے معمولات زندگی نارمل نہیں، وہاں عورت کا حال کیا ہوگا، اخبار اور الیکٹرانک میڈیا کی خبریں کربناک حالات کی داستانیں سناتی ہیں-
پاکستان کا معاشرہ عورت کی آزادی کو برداشت کرنے کے لئے کس حد تک تیار ہے؟
کوشش تو پورے زور و شور سے جاری ہے کہ اسکی لگامیں بھی کس دی جائیں، اس کو بھی برقع میں بند اور گھر میں بٹھا دیا جائے- پلٹ کر دیکھیں تو زیادہ دور کی بات نہیں، پچاس ایک سال پہلے تک بے پردہ عورت نہ تو بد کردار تھی اور نہ ہی بےشرم- اب شرم و حیا کا رشتہ پردے سے جوڑا جارہا ہے!
شریعت کے نام پر عورت کی طالبنائزیشن کی کوششیں ہورہی ہیں اور افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ خود عورت اپنی ذات کے بارے میں بے اعتمادی کا شکار ہے- ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ عورت جس نے اپنی زندگی کے چالیس پچاس سال دفتر میں نو سے پانچ تک کام کرتے گزارے، مردوں کے شانہ بشانہ چلی، اچانک ہی یہ محسوس کرنے لگی کہ برقع اس کی محفوظ ترین پناہ گاہ ہے-
پردے کی شرعی حیثیت کیا ہے، شرعی پردہ کیا ہے صرف حجاب کافی ہے یا برقع بھی لازم؟ اس مسئلے پر بہت کنفیوژن اور اختلاف رائے ہے- لیکن اس موقع پر مردوں سے ایک سوال کرنا بیجا نہ ہوگا- ویسے تو آپ نے عورت کو برقع اوڑھا دیا لیکن آنکھیں پھر بھی کھلی ہیں- جو نظروں کے سامنے ہے سب کچھ نظر آرہا ہے عورت، مرد بوڑھے، جوان --- اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے؟ کیا برقع پہن کر جذبات اور سوچ کے دروازے بھی بند ہوجاتے ہیں؟
برقع پہلے سیاہ ہوتے تھے یا پھر سفید --- سیدھے سادے، بے رنگ، بے مزہ- لیکن آج کی تجارت کی دنیا میں برقع بھی بازار میں نمایاں جگہ پر جلوہ افروز ہے- ڈیزائنرز کی نظریں خلیجی ریاستوں پر ہیں- پاکستان میں اچھی خاصی بڑی مارکٹ ہے- اب برقع سیاہ یا سفید رنگ کا پانچ چھ گز کا ٹکڑا نہِیں- سلمیٰ ستارے، شیشہ موتی اور قیمتی پتھروں سے آراستہ اور انھیں پہن کر نظر آنیوالی خوبصورت لڑکیاں اور عورتیں --- ڈیزائنر حضرات و خواتین کو مفت مشورہ ہے، سیاہ و سفید سے باہر نکل کر اور رنگوں کی طرف بھی آئیں- ابھی طالبان نے رنگوں پر پابندی نہیں لگائی ہے-
لکھاری فری لانس جرنلسٹ ہیں، اور سماجی مسائل اور ادب پر لکھنا پسند کرتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔