نقطہ نظر

بوتل کا جن

اراکین پارلیمنٹ اہل ظرف تو ہو سکتے ہیں لیکن ملنگ ہرگز نہیں، سوائے شیخ رشید کے۔

پچھلے دنوں پارلیمنٹ لاجز کی جھاڑیوں میں پڑی شراب کی بوتلوں میں بند جن اچانک ایک زبردست دھماکے کے ساتھ عوام کے سامنے آ گیا اور پاکستان کی معصوم اور مظلوم عوام کو چیخ چیخ کر بتایا کہ ان کے بھیجے ہوئے عوامی نمائندے ان ہی کے پیسوں پر نہ صرف عیاشی کرتے ہیں اور پینے پلانے کے بعد خالی بوتل جمشید دستی کے دروازے پر چھوڑ جاتے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جس طرح ہم اور جنوں بھوتوں پر یقین نہیں کرتے اور اس جن کو بھی نظر انداز کر دیتے تو یہ تماشہ اتنا طول نہ کھینچتا لیکن چند عوامی نمائندہ گانجن میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار بھی شامل ہیں غصے میں آ گئے اور جمشید دستی پر سستی شہرت حاصل کرنے کا الزام لگا دیا. وہ بضد تھے کہ عوامی نمائندے عوام کی طرح معصوم اور شراب نوشی جیسے گناہ سے میلوں دور ہیں۔

جمشید دستی عوامی آدمی ہیں لہذا انہوں نے مسئلہ بھی عوامی اٹھایا؛ جی ہاں شراب نوشی، چرس نوشی، اور مجرے وغیرہ عوامی مسئلے ہیں، نہیں تو آپ جماعت اسلامی سے پوچھ لیں؟ وہ بھی تو اقتدار پر قابض ہونے کے بعد (جائز، ناجائز) تمام اخلاقی برائیوں کا ہی تو خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔

بقول حسن نثار؛ جاگیرداری، بدعنوانی، رشوت خوری، پیشہ ور جھوٹے گواہ، ملاوٹ، کم تولنا زیادہ بولنا، بچوں کے گلے کاٹنا، بچیوں کے اسکول بم سے اڑانا یہ سب تو معمولی باتیں ہیں جب لوگ شراب نوشی چھوڑ دیں گے تو یہ چھوٹے چھوٹے مسلے معاشرے سے خود بخود ختم ہو جائیں گے۔

ہمیں حیرت ہے اتنا بلند اخلاق آدمی جمشید دستی اتنے عرصے تک پاکستان کی ایک لبرل جماعت کے ساتھ جڑا رہا اور ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا قائد اور رہنما مانتا رہا. شاید وہ بھٹو صاحب کو منور حسن جیسا بلند اخلاق آدمی سمجھتے ہوں گے جنہوں نے شراب کو کبھی ہاتھ تو کیا نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا ہو گا۔

مذکور واقع سے کچھ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو یہ بحث ضرور چھڑ گئی ہے کہ ہمارے عوامی نمائندگان عوام کے پیسوں کو اپنی عیاشی کے لیئے استعمال کرتے ہیں۔

پتہ نہیں شاید ہمارا ہی تجربہ کچھ ناقص ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر عوامی طبقات اپنی دولت سے عیاشی کرتے ہیں کوئی ولایتی پیتا ہے تو کوئی دیسی، نہیں تو عید اور بقرعید پر کچی پی کر ٹن ہو جاتے ہیں اور پھر جناب چرس تو ٹھہرا ہی عوامی نشہ ہے، ہمیں حیرت ہے یہ کون غریب تھا جو پارلیمنٹ لاجز میں چرس پی رہا تھا!بقول شاعر؛

وہ مزا کہاں شراب میں جو چرس کے گاڑھے دھویں میں ہے

یہ شوق اہل ظرف کا ہے وہ ملنگ کے روئے روئے میں ہے

اراکین پارلیمنٹ اہل ظرف تو ہو سکتے ہیں لیکن ملنگ ہرگز نہیں، سوائے شیخ رشید کے۔

معلومات حاصل کرنے پر پتہ چلا کہ ایک ولایتی شراب کی بوتل تقریبا پانچ ہزار روپے تک ہوتی ہے. اس ملک کی اشرافیہ روزانہ ایک بوتل تو پیتی پلاتی ہی ہو گی۔

تھوڑی دیر کا نشہ، بڑی بڑی باتیں اور پھر اپنے اندر کی ساری غلاظت باتھ روم میں بہا کر آ جاتے ہیں، یہ ولایتی شراب پینے والوں کو کبھی احساس نہیں ہوتا کہ اس ملک میں عوام کی ایک بڑی تعداد پورے مہینے پورے پورے دن محنت کرنے کے بعد پانچ ہزار کمانے میں کامیاب ہوتی ہے جسے وہ دو گھنٹے میں پی کر برابر کر دیتے ہیں۔

خرم عباس
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔