فوجی آپریشن پر اتفاقِ رائے موجود نہیں: فضل الرحمان
اسلام آباد: جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے لیے اب تک سیاسی اتفاق رائے نہیں ہوسکا ہے۔
انہوں نے جمعہ کے روز اپنے ایک بیان میں کہا ’’حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان امن مذاکرات پر مرکزی دھارے کی تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاقِ رائے موجود تھا، لیکن ان کے خلاف فوجی آپریشن پر کوئی سیاسی اتفاقِ رائے موجود نہیں ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی طالبان کے خلاف فوجی آپریشن پر سیاسی اتفاقِ رائے پید کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن وہ ناکام رہے تھے۔‘‘
جے یو آئی ایف کے سربراہ نے کہا کہ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان جب وہ اپوزیشن میں تھے تو اس وقت انہوں نے بھی اس فوجی آپریشن کی مخالفت کی تھی، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اس سوچ کو تبدیل کردیا ہے۔
جمیعت علمائے اسلام ف کے ترجمان جان اچکزئی نے کہا کہ ان پارٹی کی خواہش ہے کہ حکومت فوجی آپریشن شروع کرنے سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں سے مشورہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے دو پارلیمانی قراردادیں پاس ہوئی تھیں، دو کل جماعتیں کانفرنسیں منعقد اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے منعقد کروائی تھی، دو کثیر جماعتی کانفرنسیں جے یو آئی ایف کے زیراہتمام اور ایک کل جماعتی کانفرنس وزیراعظم نواز شریف نے منعقد کرائی تھی، لیکن فوجی آپریشن اور اس کے نتائج پر تبادلۂ خیال نہیں کیا گیا۔
ترجمان نے کہا کہ جے یو آئی ایف کو یقین ہے کہ فوج یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ ایک کامیاب آپریشن منظم کرسکے اور طالبان کے ماتحت علاقوں کو خالی کراسکے، لیکن سولین سیکیورٹی فورسز اس کے بعد کی صورتحال سے نمٹنے کے قابل نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’یہ خدشہ ہے کہ اگر قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے گڑھ کے اندر ان کے خلاف فوجی آپریشن کیا گیا تو وہ دیگر علاقوں اور یہاں تک کے آبادیوں میں منتقل ہوجائیں گے۔‘‘
’’ہمیں خوف ہے کہ عسکریت پسند نقل مکانی پر مجبور ہونے والے افراد کی آڑ لے کر اسلام آباد، کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں روپوش ہوجائیں گے اور پولیس یہ صلاحیت نہیں رکھتی کہ آباد علاقوں میں ان کے داخل ہوجانے کے بعد انہیں پہچان سکے۔ ‘‘