پاکستان

نئے سروے میں صحت و تعلیم کی افسوسناک صورتحال

بچوں کی صحت، تعلیم، کم عمری میں شادی اور خواتین پر تشدد جیسے اہم عامل پر فوری توجہ کی ضرورت ہے
|

پاکستان صحت، آبادی، تعلیم اور دیگر سماجی اور معاشرتی رحجانات کی منفی فہرست میں شامل ہے اور ایسا ہی تنازعات سے بھرپور سروے بدھ کو اس وقت سامنے آیا جب ایک سیمینار میں پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے ( پی ڈی ایچ ایس) سال 2012 اور 2013 کی تفصیلات سامنے آئیں۔

اگر یہی سلسلہ رہا تو سال 2020 تک پاکستان کی آبادی 20 کروڑ تک جاپہنچے گی۔ نومولود، بہت چھوٹے اور بڑے بچوں اور ماں کی اموات کے حوالے سے رحجانات نہایت حوصلہ شکن ہیں ۔ گزشتہ دو عشروں میں تولیدی ( فرٹیلٹی) شرح بہتر ہوئی ہے لیکن گزشتہ دس سالوں میں اس کی رفتار سست رہی ہے۔

مانع حمل طریقے متعارف کرانے کے باوجود بھی اس شرح میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔ تاہم فرٹیلٹی شرح کم ہونے سے دوسرے عوامل پر اثر پڑا ہے مثلاً ماؤں کے دودھ پلانے کی مدت میں اضافہ ہوا ہے، اسقاطِ حمل ( ابورشن) کی شرح میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔

سروے میں پہلی مرتبہ گھریلو تشدد اور خواتین کو بااختیار بنانے جیسے اہم عوامل پر بھی ڈیٹا شامل کیا گیا ہے۔ اگرچہ اعداد و شمار بہت ذیادہ حوصلہ افزا نہیں لیکن یہ مسائل بھی توجہ چاہتےہیں۔

پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے سال 2012 اور 2013 کے تحت چند اہم انکشافات درج ذیل ہیں۔

گھریلو ڈیٹا

پاکستانی آبادی کے اکثر گھرانوں میں افراد کی اوسط تعداد 6.8 ہے اور ان میں سے اکثریت 39 کی عمر پندرہ سال سے کم ۔ 94 فیصد گھروں میں بجلی ہے اور 93 فیصد افراد کو ' پینے کے صاف پانی تک رسائی' حاصل ہے۔

مختلف اشیا پر حق ملکیت

سروے کے مطابق 87 گھروں می موبائل فون موجود ہے۔ ٹی وی صرف 60 فیصد گھروں میں ہے اور گیارہ فیصد افراد کے پاس ریڈیو ہے۔ ان میں سے صرف تیرہ فیصد گھروں میں کمپیوٹر ہے اور سات فیصد گھروں کو انٹرنیٹ سہولیات موجود ہیں۔

تعلیم

تعلیم کے حوالے سے اکیس فیصد مرد اور سولہ فیصد خواتین نے پرائمی تک تعلیم حاصل کی ہے ۔ پانچ میں سے ایک خاتون اور تین میں سے ایک مرد نے سیکنڈری یا اس سے اوپر تعلیم حاصل کی ہے۔ 57 فیصد پاکستانی شادی شدہ خواتین اور 29 فیصد پاکستانی شادی شدہ مردوں نے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی۔

تولیدی صحت

دیہات میں رہنے والی خواتین کے اوسط 4.2 بچے اور شہروں میں ایک خاتون کے اوسط 3.2 بچے ہیں۔

نوعمری اور تولیدی صحت

ملک میں بچیوں کی شادی کی قانونی عمر سولہ فیصد ہے لیکن آٹھ فیصد نوعمر خواتین ( جن کی عمر 15 سے 19 سال ہے) یا تو مائیں بن چکی ہیں یا پھر اپنے پہلے بچے کی پیدائش کے مرحلے میں ہیں۔

تاہم نوعمر لڑکیوں میں ماں بننے کی شرح 1990 اور 1991 کے مقابلے میں نصف ہوئی ہے۔

نوعمر ( ٹین ایج) لڑکیاں جو کم آمدنی والے گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں ان میں ماں بننے کا رحجان ذیادہ امیر گھرانوں کی خواتین سے تین فیصد ذیادہ ہے۔ سب سے کم عمر مائیں صوبہ خیبر پختونخواہ میں نوٹ کی گئ ہیں جن کی شرح دس فیصد ہے۔

پہلی شادی کی عمر

پچیس سے اننچاس سال کی عمر کے درمیان کی 35 فیصد خواتین کی شادی اٹھارہ سال کی عمر میں ہوگئی تھی اور 54 فیصد کی شادی بائیس سال کی عمر میں ہوئی اور اس طرح خواتین میں شادی کی درمیانی اوسط عمر نکلی 24.7 سال۔

شادی اور رشتے داری

پاکستان میں نصف سے زائد شادیاں فرسٹ کزنز میں ہی ہویتی ہیں ۔ شہری علاقوں میں 38 فیصد اور دیہاتوں میں 54 فیصد

فیملی پلاننگ

اس شعبے سے حوصلہ افزا رحجانات ملے ہیں۔ 99 فیصد شادی شدہ مرد اور 95 فیصد شادی شدہ خواتین ، جدید فیملی پلاننگ کے کم از کم ایک طریقے سے واقف ہیں اور ان میں سے 26 فیصد انہیں استعمال کرتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق مانع حمل طریقوں کیلئے اب مخالفت کی رکاوٹ موجود نہیں۔ جوڑے کے ترجیح والے طریقے تک رسائی اس میں اس میں سست رفتاری کی ایک وجہ ہے۔

خواتین حمل روکنے کیلئے جو طریقہ استعمال کرتی ہیں:انجکشن: 95 فیصد گولیاں: 5 فیصد اسٹرلائزیشن: 91 فیصد

نومولود اور چھوٹے بچوں کی اموات

پاکستان میں 14 میں سے ایک بچہ اپنی پہلی سالگرہ پر ہی موت کا شکار ہوجاتا ہے گیارہ میں سے ایک بچہ اپنی عمر کی پانچ بہاریں نہیں دیکھ پاتا۔ دوسری جانب تعلیم یافتہ خواتین کے مقابلے میں غیر تعلیم یافتہ ماؤں کے پانچ سال سے کم عمر بچوں میں مرنے کی شرح دوگنی نوٹ کی گئی جو ایک ہزار بچوں میں سے 112 تھی۔ جبکہ پڑھی لکھی ماؤں نے اوسطاً ایک ہزار میں سے 57 بچوں کوکھویا۔ اس کے علاوہ پڑھی لکھی ماؤں کے مقابلے میں ان پڑھ ماؤں میں بچوں کےمرنے کی شرح تین گنا ذیادہ تھی۔

بچوں کی صحت

ویکسین کوریج

بارہ سے لے کر23 ماہ کے بچوں کی 54 فیصد تعداد نے تمام تجویز کردہ ویکیسن لگوائیں ۔

شہری علاقوں میں ویکسین کوریج 66 فیصد اور دیہی علاقوں میں 48 فیصد ہے۔ جہاں مائیں پڑھی لکھی تھیں وہاں کوریج بہت بہتر دیکھی گئی ۔

ماؤں اور بچوں میں غذایت

سروے کے تحت 15 سے 49 سال کی 14 فیصد خواتین کمزور جبکہ چالیس فیصد خواتین کا وزن اوسط سے ذیادہ تھا۔

ایچ آئی وی اور ایڈز کی معلومات اور رویہ

معلومات اور شعور

رپورٹ کے مطابق صرف 42 فیصد شادی شدہ خواتین اور 69 شادی شدہ مردوں نے ایڈز کا نام سنا تھا جبکہ ایچ آئی وی سے حفاظت کے بارے میں معلومات کی شرح اس سے بہت کم تھی۔

رویہ

مردوں اور عورتوں کی آدھی سے کچھ کم تعداد نے کہا کہ اگر کسی سبزی فروش کو ایچ آئی وی ہو تو وہ اس سے تازہ سبزی خریدنے کو ترجیح دیں گے۔ جبکہ نوے فیصد افراد نےکہا کہ اگر ان کے خاندان میں کسی کو ایڈز ہوجائے تو وہ اس کی دیکھ بھال گھر پر کریں گے۔

سروے کے مطابق پاکستان میں ایڈز اور ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ سرنج سے نشہ آور ادویات کا استعمال اور سرنج کا ایک سے زائد لوگوں کا استعمال کرنا ہے۔

اس ک علاوہ جب کراچی میں صدر ٹاؤن کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ ایچ آئی وی اور ایڈذ کے سب سے ذیادہ مریض یہاں موجود ہیں۔

با اختیار خواتین

پاکستان میں 15 سے 49 سال تک کی خواتین کا انٹرویو کیا گیا تو ان میں سے 29 فیصد خواتین روزگار سے وابستہ تھیں جبکہ اسی عمر کے گروپ کے 98 فیصد مرد روزگار سے وابستہ تھے۔

شوہر کی آمدنی سے حصہ

پاکستان کے مختلف علاقوں میں مردوں کو خرچ کرنے کے مکمل اختیار کی شرح:بلوچستان : 71 فیصد خیبر پختونخواہ : 68 فیصد سندھ: 35 فیصدپنجاب: 25 فیصد

مرد جو کہتے ہیں کہ خرچ کرنے میں ان کی بیگمات کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے:

سندھ میں 16 فیصد، سب سے ذیادہگھریلو تشدد شادی شدہ تین خواتین میں سے ایک پندرہ سال کی عمر سے جسمانی تشدد کا شکار دیکھی گئیں۔ گزشتہ بارہ ماہ میں پانچ میں سے ایک خاتون کو جسمانی مارپیٹ کا سامنا کرنا پڑا۔

تقریباً چالیس فیصد خواتین کو زندگی میں کسی نہ کسی موقع پر کسی نہ کسی طرح اپنے شوہروں سے تشدد کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان میں سے سب سے عام جذباتی انداز میں تشدد کرنا تھا جس کی شکار 32 فیصد خواتین دیکھی گئیں۔

آدھی سے ذیادہ خواتین جن پر تشدد کیا گیا انہوں نے کسی سے مدد طلب نہیں کی

بیوی پر تشدد کے رحجانات

تقریباً 43 خواتین اور ایک تہائی مردوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ' اگر بیوی اس سے جھگڑے، بچوں کو نظر انداز کردے، جنسی عمل سے منع کردے، بتائے بغیر کہیں چلی جائے، ساس اور سسروں کو نظر انداز کرے یا کھانا جلادے ' تو شوہر اس پر ہاتھ اُٹھا سکتا ہے۔