شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ناگزیر: واشنگٹن پوسٹ
واشنگٹن: کل بروز بدھ چھبیس فروری کی اشاعت میں واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ دی ہے کہ پاکستانی حکومت شمالی وزیرستان میں جلد ہی ایک بڑی فوجی کارروائی شروع کرنے والی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے حال ہی میں کیے گئے طالبان کے سفاکانہ حملوں اور عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی بظاہر ناکامی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کی وجہ سے پاکستان کو اس آپریشن کا انتخاب کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
ایک سینئر پاکستانی اہلکار نے امریکی اخبار کو بتایا کہ ’’یہ کسی روز بھی شروع ہوسکتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ سینئر امریکی حکام کے ساتھ اس کارروائی کے منصوبے کا اشتراک کیا گیا تھا۔
ایک اور امریکی نیوز سائٹ ’فارن پالیسی‘ نے حوالہ دیا کہ ’’دونوں ملکوں کے سیکیورٹی حکام کے اعلٰی سطحی اجلاسوں میں سیکیورٹی آپریشن کے لیے منصوبہ بندی اس وقت سامنے آئی ہے، جبکہ امریکی ڈرون حملوں کو بند ہوئے تیسرا مہینہ ہونے والا ہے۔ ‘‘
امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل لائیڈ جے آسٹن اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برینان نے گزشتہ ہفتے پاکستان میں اپنے ہم منصب سے ملاقات کی تھی، اور پاکستان کے سیکریٹری دفاع آصف یاسین ملک سیکیورٹی مذاکرات کے لیے اس وقت واشنگٹن میں ہیں ۔
امریکی اخبار نے وزیراعظم نواز شریف کے قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز کا حوالہ دیا کہ انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ ’’طالبان کے ساتھ مذاکرات پٹری سے اترگئے ہیں، اور اس خطے میں ریاست کی عملداری قائم کی جائے گی۔‘‘
مذکورہ پاکستانی اہلکار جنہوں نے واشنگٹن پوسٹ کو شمالی وزیرستان میں ایک فوجی آپریشن کے شروع ہونے کے بارے میں بتایا، ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج کے ایک لاکھ پچاس ہزار سپاہی پہلے ہی اس قبائلی علاقے میں مکمل صفایا کردینے والا ایک آپریشن شروع کرنے کے لیے پہلے ہی سے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس علاقے سے شہریوں کا باضابطہ انخلاء ابھی شروع ہونا ہی تھا کہ ہزاروں باشندوں نے فاٹا چھوڑ کر دیگر علاقوں کی جانب نقل مکانی شروع کردی ہے، اس لیے کہ انہیں پکا یقین ہے کہ ایک فوجی آپریشن کا جلد ہی آغاز ہونے والا ہے۔
لیکن امریکی حکام نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ انہیں اب بھی اس بات کا یقین نہیں ہے کہ پاکستان یہ آپریشن شروع کرے گا۔
ایک امریکی اہلکار نے کہا ’’ہمیں اس وقت یقین آئے گا، جب ہم اسے دیکھ لیں گے۔‘‘
لیکن امریکی اخبار کے پاکستانی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی اپنی ریاست کو لاحق بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لیے یہ آپریشن شروع کرنے جارہے ہیں، نہ کہ امریکا کی ’’خوشی‘‘ کے لیے۔
واشنگٹن پوسٹ نے کہا کہ ملک میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں نے فوجی کارروائی کے لیے نئی سیاسی گنجائش پیدا کردی ہے۔
پاکستان کے سینئر اہلکار جو واشنگٹن پوسٹ سے بات کررہے تھے، انہوں نے آگاہ کیا کہ حکومت اس بات کا باضابطہ اقرار نہیں کرے گی کہ مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں، اور کہا کہ حکومت کے لیے اسی سیاسی اہمیت ہے کہ اس کو منطقی انجام تک لے جایا جائے۔
واشنگٹن پوسٹ نے امریکی حکام کے حوالے سے کہا کہ پاکستان اپنی انٹیلی جنس اور افغان گروپس کے درمیان تعلقات کی وجہ سے حملہ کرنے سے ہچکچا رہا تھا، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان افغانستان میں اپنے آپشن اوپن رکھنا چاہتا ہے۔