ڈھونگی سائنس
مجھےآج بھی ان دو پولیس والوں کی گفتگو یاد ہے جو میں نے سنہ انیس سو اسی، میں اپنے دادا کے آفس کے بالکل باہر سنی تھی- گفتگو پنجابی میں کچھ اس طرح تھی:
پہلا پولیس والا: پاکستان ایٹم بم بنانے والا ہے-
دوسرا پولیس والا: نہیں، میرے خیال سے ہمارے پاس پہلے ہی سے ایٹم بم موجود ہے-
پہلا پولیس والا: ابھی نہیں ہے، کیونکہ میں نے سنا ہے بم بنانے والے ایٹمز ہمارے پاس نہیں ہیں-
دوسرا پولیس والا: ہمارے پاس نہیں ہیں؟
پہلا پولیس والا: نہیں، ہم ایٹمز چین سے منگوا رہے ہیں-
دوسرا پولیس والا: ہاں چین کے پاس تو بہت سے ایٹمز ہیں، اسی لیے تو امریکا پاکستان چین کی دوستی کے خلاف ہے-
پہلا پولیس والا: ہاں، وہ نہیں چاہتا کہ چین پاکستان کو ایٹم بھیجے-
یہ سادے سے پولیس کانسٹیبل نیوکلیئر فزکس پر بات کرنے کی کوشش کر رہے تھے- خدا جانے ان کے نزدیک ایٹم کیا چیز تھے، ممکن ہے وہ انہیں سٹیل کی بال بیئرنگ سمجھتے ہوں جنہیں ایک بڑے دھاتی خول میں لگا کر جہاز سے پھینکا جاۓ تو پھٹ جاتے ہوں-
باوجود اس کے کہ انکی یہ گفتگو سرد جنگ کے دور کے مخصوص سیاسی خفقان پر مبنی تھی، یہ سادہ لوح، ادھ پڑھے لکھے حضرات 'ایٹم بم' کے ہوپلے کا جواز تلاش کرنے کی مخلصانہ کوشش کر رہے تھے-بہرحال، اس حوالے سے جو بات مضحکہ خیز ہے اس کا تعلق سادہ لوح لوگوں سے نہیں بلکہ نام نہاد سائنس دانوں سے ہے-
اگر ڈاکٹر پرویز ہود بھوئی اپنی پہلی کتاب، اسلام اینڈ سائنس : ریلیجیس ارتھوڈوکسی اینڈ بیٹل فار ریشنیلیٹی، میں اس کا ذکر نہ کرتے تو شاید مندرجہ ذکر تاریخ کے پنوں میں کہیں کھو جاتا-
مسلم ممالک میں اسکالر شپ کی تاریخ میں 'عالمی سائنس' اور منطقی سوچ کے زوال پر اظہار افسوس کرتے ہوے ایک باب میں ، پرویز ھود بھوئی ہمیں بتاتے ہیں کہ کس طرح انیس سو اسی کی دہائی کے وسط میں، تیل کی دولت سے مالامال بعض عرب ممالک اور پاکستان میں ضیاء الحق آمریت نے لاکھوں روپے لگا کر 'اسلامی سائنس' کی موزونیت کے لئے اسلام آباد میں شاہانہ سیمینار کا انقعاد کیا-
انیس سو ستر کی دہائی کے اختتام سے پہلے، اسلامی سائنس سے مراد آٹھویں اور چودھویں صدی کے درمیان مسلم ماہرین اور علماء کرام کی ایک بڑی تعداد کی ریاضی، جیومیٹری، فلکیات، کیمسٹری اور فلسفہ کے شعبوں میں تحقیق تھا- دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ 'عالمی سائنس' پر ایسے غیر جانبدار حضرات نے کام کیا جو اتفاق سے مسلمان بھی تھے-
انیس سو ستر کی دہائی کے اختتام تک، اسلامک سائنس تصور محض ڈھونگ بن کر رہ گیا-
یہ بڑی حد تک تیل سے مالامال سعودی بادشاہت کے دماغ کی اختراع تھی- سعودی حکومت کو اس بات کی تشویش تھی کہ مغربی تعلیمی نظام اور ماڈلز، آزاد مفکر اور سیکولرسٹ (اور ایسے خیالات کو فروغ دے رہا ہے جس کی وجہ سے مذہبی بنیادوں پر قائم بادشاہت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے)، ساٹھ اور ستر کی دہائی کے دوران بڑھتے ہوۓ انقلابی نیشنل ازم اور سوشلزم سے گھبرا کر سعودی حکومت نے ایسے منصوبوں 'پیٹرو ڈالر' لگانا شروع کردیا جو معاصر اسلامی فکر کو مغربی سائنس کے برابر لا سکے-
یہ خیال یقیناً قابل تحسین تھا- لیکن افسوس! اسلامی ملکوں میں تعلیمی نصاب اور تدریسی معیار کو عصر حاضر کے مطابق بنانے اور اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پیسا لگانے کے بجاۓ یہ پیٹرو ڈالر، سائنسدان 'حاصل' کرنے میں لگایا گیا، جن کا کام ایسے ثبوت اکھٹا کرنا تھا جن سے یہ ثابت ہو سکے کہ 'سیکولر سائنس اور سوچ'، اسلامی سائنس سے کمتر ہے-
اچھے معاوضے اور مراعات کے لالچ میں مغربی، پاکستانی اور عرب سائنسدان اور ڈاکٹرز، سعودی عرب میں 'اسلامی سائنس' کے نۓ قائم کردہ اداروں میں پہنچنا شروع تو ہو گۓ لیکن ان میں سے کسی کو اس بات کا ادراک نہ تھا کہ آخر 'اسلامی سائنس' کس چڑیا کا نام ہے-
معروف مصنف اور سائنسدان، ضیاء الدین سردار، بھی انہی میں سے ایک تھے- اپنی کتاب 'ڈسپریٹلی سیکنگ پیراڈائز ' (Desperately Seeking Paradise ) میں وہ لکھتے ہیں کہ انہیں جب احساس ہوا کہ سعودیوں کو فقط 'سائنسدانوں کے بہروپ میں خبطی ' چاہییں تو وہ سعودی عرب چھوڑ کر آ گئے-
بلآخر سنہ انیس سو چھہتر میں، مورس بخیل کی کتاب ، 'دی بائبل، قرآن اینڈ سائنس' (The Bible، Quran and Science ) اسلامی سائنس کے نۓ تصور کے ساتھ پبلش ہوئی-
اس کتاب نے مسلم دنیا میں سنسنی پھیلا دی لیکن ساتھ ہی کئی مسلم سائنسدان ہکابکا ہو کر رہ گۓ کہ آخر مورس بخیل کہنا کیا چاہ رہے ہیں-کتاب خاصی دلچسپ ہے- اس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ماڈرن مغربی سائنسدانوں کے دریافت کردہ مختلف سائنسی عوامل کی نشاندہی اور پیشنگوئی قران میں پہلے ہی سے کر دی گئی ہے- تاہم، اگر کوئی تھوڑا دھیان دے تو اسے پتا چلے گا کہ یہ دعوے کرنے والا مورس بخیل کوئی سائنسدان نہیں تھے-
مورس بخیل ایک فرانسیسی معالج تھے جنہیں سنہ انیس سو تہتر میں سعودی بادشاہ، شاہ فیصل، کا ذاتی معالج بنایا گیا تھا- مورس کے یہ دعوے کسی عملی مشاہدے پر مبنی نہ تھے بلکہ بعض قدامت پرست، قدیم کٹر مسلم فقہاء کی مخصوص طرز فکر کی غیر تنقیدی قبولیت کا شاخسانہ تھے-
بخیل، کو مسلم اور مغربی سائنسدانوں نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا، خصوصاً مسلم سائنسدانوں نے مورس پر یہ الزام لگایا کہ وہ مسلم نوجوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں اور ان میں جدید روایتی سائنسی مطالعہ ختم کرنے کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، کیونکہ اگر کیمسٹری، فزکس، اسٹرونومی اور بائیولوجی کے بارے میں تمام ضروری معلومات اگر قیاس کی رو سے سب قرآن میں ہی موجود ہیں تو پھر سائنسی مطالعے کی ضرورت ہی کہاں باقی رہ جاتی ہے-
ان کے نقادوں کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر قرآن ایک اخلاقی رہنما ہے جو دراصل لوگوں کو اپنے اردگرد موجود خدا کی تخلیقات کو سمجھنے کی ترغیب دیتا ہے، اور یہ تبھی ممکن ہے جب سائنس اور فلسفہ کا مطالعہ کیا جاۓ-
اگرچہ بخیل کی کتاب کمزور بنیادوں پر لکھی گئی تھی لیکن جب کبھی بھی اسے روایتی عملی سائنس کے مقابل لایا گیا اس نے مسلمانوں کی اکثریت کے فکری طرز عمل کو تبدیل کیا-
ایک فرانسیسی کرسچین ڈاکٹر کے دلچسپ دعووں سے متاثر ہونے والے مسلمانوں نے یہ تک دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ مذکورہ شخص سعودی بادشاہت کا تنخواہ دار ملازم تھا- وہ حکومت جو مسلم دنیا میں پھیلی ہوئی قوم پرست تحریکوں سے لاحق خطرات اور مسلمانوں میں سیکولر ازم اور سوشلزم کے بڑھتے ہوۓ اثر و رسوخ (انیس سو پچاس کی دہائی سے انیس سو ستر کی دہائی کے درمیان) کو کم کرنے کی کوشش میں مصروف تھی-
آئیڈیا یہ تھا کہ اگر سیاست کو 'اسلامائز' کیا جا سکتا ہے (مودودی، قطب، اور بعد میں خمینی ) تو پھر 'سائنس' اور آگے جا کر معاشیات (بینکنگ) کے لئے بھی ایسا ممکن ہے-
جنگ عظیم دوم کے بعد تعلیمی اور معاشی اقدامات کے ذریعہ یہودیوں کی اقتصادی اور سیاسی ترقی کو مجبوراً تسلیم کرتے ہوۓ عرب دنیا نے اپنا خود کا ترقیاتی تصور پیش کرنے کی کوشش کی-
لیکن یہ ترقی بڑی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ماہر مسلمان تیار کرنے کے لئے نہیں تھی ، بلکہ خود کو سائنسدان اور ماہر اقتصادیات کہنے والے حضرات کی جانب سے پلپلی، من موہی سائنسی ہرزہ سرائی پر یقین کرلینے والی کٹھ پتلیوں کی تیاری تھی- اور پھر یوں ہوا کہ بعد از بخیل مسلم انداز فکر نے عالمی سائنس پر 'سیکولر سائنس' کا لیبل لگا دیا جسے یہودیوں نے مسلمانوں کو سرنگوں کرنے کے لئے تخلیق کیا تھا-
بخیل کے مداحوں کو انکی تھیوری کے غیر حقیقی میک اپ پر کوئی اعتراض نہ تھا ( وہ اس سے بےخبر تھے)- بہت سوں کا آج بھی یہ ماننا ہے کہ سائینسی حقائق کو مقدس کتابوں سے ثابت کرنا صرف مسلمانوں کا خاصہ ہے-
مسلمانوں سے پہلے، بعض ہندو اور کرسچین علماء دین بھی یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ انکی متعلقہ مقدس کتابیں، سائنٹفک طور پر ثابت ہونے والے عوامل کے لئے استعاری پیشن گوئیاں رکھتی ہیں- انہوں نے اسکا آغاز اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ہی کر دیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں کو یہ خیال بیسویں صدی میں آیا-
اس کی ایک مثال، جوہانس ہینرچ کی کتاب سائنٹفک وینڈکشن آف کرسچینٹی (Scientific Vindication of Christianity :1887 ) ہے، جبکہ موہن راۓ کی 'ویدک فزکس:سائنٹفک اوریجن آف ہندوازم ' (Vedic Physics : Scientific Origin of Hinduism ) بھی مخصوص مذاہب کے پیروکاروں کی طرف سے ایسے ہی تصوراتی دعوؤں پر مبنی ایک کوشش ہے-
سنہ انیس سو اناسی میں ایران کے اسلامی انقلاب، ااور افغانستان میں جہاد جیسے واقعات کے تناظر میں مسلم ممالک میں نیم سیکولر/ترقی پسند خیالات معدوم ہونا شروع گۓ- اسلامی سائنس کا تصور، قدیم اور جدید مسلمان سائنسدانوں کی کاوشوں سے بتدریج تبدیل ہوکر غیر مصدقہ اور خیالی بھول بھلیاں بن کر رہ گیا-
اس تناظر میں قدرتی بات تھی کہ پاکستانی فوجی آمر، جنرل ضیاء الحق نے، سعودی اثرورسوخ اور مالی امداد استعمال کر کے، اسلام آباد سنہ انیس سو چھیاسی میں مسلم 'سائنسدانوں' کا سیمینار منعقد کروایا، اسلامی سائنس کے کرشمے بےنقاب کرنے والے یہ نام نہاد سائنسدانوں کے اکھٹے ہونے کا مقصد جنوں کے ذریعہ توانائی اور بجلی حاصل کرنے اور 'جنت کی رفتار' ناپنے تک ہی محدود رہا-
سیمینار سٹار ٹریک کنونشنز جیسے تھے لیکن حقیقتاً ان کی تشہیر 'اسلامی سائنس کے آغاز کے لئے بڑے قدم' کے طور پر کی گئی- جسکا پیغام بظاہر یہی تھا کہ خدا کی تخلیقات کو سمجھنے کے لئے کتابیں پڑھنے یا لیب میں تجربے کرنے کی ضرورت ہے، بس آپ مقدس کتاب پڑھ لیں- پرانے وقتوں کے مسلم سائنسدانوں، یا عبدلسلام ، آئنسٹائن اور سٹیفن ہوکنگ کو بھول جائیں- بس اپنے محلے کے جن سے رابطہ کریں اور توانائی کے تمام مسائل سے نجات پائیں-
انیس سو اسی کی دہائی میں مسلم حکومتیں انہی مشغلوں میں اپنا پیسہ اور توانائی صرف کرنے میں مصروف تھیں جبکہ اپنی خواندگی کی شرح بڑھانے کی بھی کوششیں جاری تھیں-
یہ عمل مسلم دنیا کو مذہبی کوتاہ بینی اور غیر سائنسی جھکاؤ کی طرف لے گیا-
بیسویں صدی میں منطقی مسلم سکالرز اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ قران ایک قوانین اور سائنس کی کتاب کم اور مسلمانوں کے لئے ایک صریح اخلاقی گائیڈ زیادہ ہے، جس میں خدا نے اپنے بندوں کو اس بات کی آزادی دی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ عملی علم حاصل کرنے کے لئے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروۓ کار لائیں-
ایرانی مصنف، ولی رضا نصر کا موجودہ رجحان پر افسوس بلکل درست ہے جہاں اکثر مسلمان عالمی سائنسی ثمرات کو اپنانے میں تو تیزی دکھاتے ہیں لیکن اس کے پیچھے موجود منطقی سائنسی سوچ کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں-
اور یہ سچ بھی ہے، مثال کے طور پر پاکستانیوں کی اکثریت کو اس بات کا کوئی علم نہیں کہ پاکستان کے واحد نوبل انعام حاصل کرنے والے ڈاکٹر عبدلسلام کو آخر انعام کس بات پر ملا تھا؟ لیکن بہت سے ایسے ہیں جو ،ہارون یحییٰ اور ان جیسے دیگر مصنفین کی کتاب کا فوراً حوالہ دے سکتے ہیں، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ بگ بینگ تھیوری اور ایسے ہی مختلف عوامل کے ذکر مقدس کتاب میں موجود ہے-
شکر ہے ایسی حماقت پاکستانی ریاست کے ایجنڈا میں شامل نہیں- لیکن پھر بھی ایسے نمونے اکثر مین سٹریم میڈیا اور فورمز پر سائنس کے نام پر بکواس کرتے نظر آجاتے ہیں-
لیکن ہمیشہ ایسے لوگوں میں صرف خبطی ہی نہیں ہوتے، بعض ایسے 'معزز سائنسدان' بھی ہیں جنہوں نے بخیلین روایت کو اپنا کر اسے نائن الیون کے بعد سازشی ڈھونگ کے ساتھ ملا دیا-
ایسے ٹی وی چینلز ایک طرف، جہاں عاقل و بالغ حضرات ہاتھوں میں میٹر لئے جناتی توانائی کی کھوج کرتے نظر آتے ہیں، یہ حقیقت زیادہ فکر کی باعث ہے کہ ملک میں تعلیم اور سائنسی حلقوں کے اعلیٰ عہدوں فائز افراد بھی اس حوالے سے کچھ عجیب و غریب نظریات کی آن دی ریکارڈ پیشکش اور تصدیق کرتے نظر آتے ہیں-
اس سلسلے میں ناقدین کا ماننا ہے کہ ایسے افراد درحقیقت اپنے دعووں کے ذریعہ ایمان کا مذاق بنا کر رکھ دیتے ہیں کیوں کہ سائنسی سچائیاں، مذہبی اور فکسڈ نہیں ہیں- یہ بڑی حد تک ارتقائی، متلون اور تبدیلی کی طرف مائل رہتی ہیں-
مثال کے طور پر، ماضی کے بعض مسلمان سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ نیوٹن کا قانون کشش ثقل پہلے ہی سے کلام پاک میں موجود ہے، لیکن جب آئنسٹائن نے نے نیوٹن کے قانون کو غلط ثابت کیا تو انہیں اپنا موقف تبدیل کرنا پڑا-کیا اس کا مطلب ہے کلام بھی غلط ہے؟
حال ہی میں، جب لاہور کے ایک کالج کے وائس چانسلرنے یہ دعویٰ کیا کہ بگ بینگ تھیوری کا ذکر مقدس کتاب میں موجود ہے تب انہوں نے بڑی آسانی سے یہ بات نظرانداز کر دی کہ اکثر سائنسی تھیوریوں کی طرح، یہ تھیوری بھی فکسڈ اور مذہبی نہیں ہے حتیٰ کہ وہ جو اسے مسترد نہیں کرتے وہ بھی اس پر غور کر رہے ہیں-
جیسے جیسے سائنسدان اسکی گہرائی تک جائیں گے، ممکن ہے یہ تھیوری بھی غلط ثابت ہو جاۓ، پھر جناب وائس چانسلر صاحب کیا کہیں گے؟اس رجحان کے مسلم ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسے افراد جو سائنسی حقائق کو مقدس کلام کا حصّہ بتاتے ہیں، وہ مسلمانوں میں عملی معلومات حاصل کرنے کے لئے میدان عمل جانے یا لیبارٹری میں اپنی تھیوریاں آزمانے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں-
انہیں اس بات پر افسوس ہے کہ یہ رجحان ناصرف مسلم دنیا میں سائنس کے لئے عظیم نقصان ہے بلکہ یہ ہمارے ایمان کو بھی متاثر کر رہا ہے-
ترجمہ: ناہید اسرار
ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔
ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔