نقطہ نظر

زندہ دستاویز

آئین اور ملکی سالمیت سے انکار، ایسوں سے مذاکرات ممکن نہیں، وزیرِ اعظم عہد پر قائم رہیں۔

'اب، لہٰذا'، دس اپریل، سن اُنیّسو تھہتر کو اُس وقت کی قومی اسمبلی کے سامنے پیش اور وہاں موجود تقریباً تمام ارکان کی طرف سے منظور کردہ آئینِ پاکستان کے پیش لفظ میں لکھا ہے: 'ہم بانیِ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح سے عہدِ وفاداری، پاکستانی عوام کی قربانیوں اور اللہ تعالی اور عوام کی جانب سے عائد فرض سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان سماجی انصاف کے اسلامی اصولی پر مبنی، ایک جمہوری ریاست ہوگا ۔۔۔ قومی اسمبلی میں موجود عوام کے منتخب نمائندے، عوام کی ذمہ داری پر اس آئین کا اطلاق اور نفاذ کریں گے۔'

مختصر مدت تک زندہ رہنے والی دستاویزات کے بعد، سن اُنیّس سو تھہتّر کے آئین کو مختلف جھکاؤ رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے منتخب نمائندوں نے منظور کیا تھا۔

کوئی شبہ نہیں کہ اس کی بعض شقوں کی تشریح کے دروازے کھلے ہیں اور اس میں بیان کردہ بعض اصولوں پر سیرحاصل بحث کی جاسکتی ہے تاہم یہ دستاویز، بعض دیگر دستاویزات کی طرح، ایسی بنیاد فراہم کرتی ہے جس پر ریاست کی عمارت کھڑی ہے۔ آج بعض ذہنیتوں کی طرف سے اس آئین کو مسترد کرتے ہوئے جمہوریت پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔

آئین، وہ بنیادی قانون ہے جو سیاسی عمل کو باضابطہ و باقاعدہ بناتے ہوئے، شہریوں کے انفرادی حقوق کی تشریح کرتا ہے، وفاق کی صورت میں یہی وفاقی اکائیوں کو متحد کرتا ہے۔

ریاست کے تین عناصرکے درمیان اختیارات کی تقسیم، ان کی ایک دوسرے سے علیحدگی اور ریاستی قوانین کے تحت حکومت چلانے کے لیے، یہ نامیاتی وحدت فراہم کرتا ہے۔ ایک آئین صرف موثر نفاذ کے لیے نہیں بلکہ خوشحالی و استحکام کی فراہمی کے واسطے بنایا جاتا ہے۔

اسی لیے اپنے عہد میں زندہ رہنے کی خاطر، ہر آئین کا لچکدار ہونا ضروری ہے تاکہ وقت کی ضرورت کے مطابق اس میں ترامیم کی گنجائش برقرار رہے۔ یہ ان تمام اصولوں پرعمل کرتا ہے اور آئین کے زندہ رہنے کی خاطر تمام بنیادی قوانین میں ترامیم کا طریقہ کار بھی فراہم کرتا ہے۔

یہی بات اسے متحرک دستاویز اور مستقبل کی ضروریات کے مطابق، اہل بناتی ہے۔ حقیقت میں سن اُنیّس سو تھہتر کے آئین کی لچک قابلِ ذکر ہے۔

دوآمروں نے اس کی بعض شقوں میں پسند کے مطابق نہایت خوفناک ترامیم کیں، جس نے آئین کے پارلیمانی طریقہ کار کو ہی تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ ان ترامیم کے ذریعے ریاست کے سربراہ کو حکومت کرنے اور قومی اسمبلی کی تحلیل کے اختیارات بھی حاصل ہوگئے تھے۔ جب یہ آمر گئے تو آئین اپنی مضبوط اخلاقی بنیادوں پر استوار اصل شکل میں لوٹ آیا۔

آج وہ عناصر جو بظاہر ان قربانیوں سے 'واقف' نہیں وہ آئین کے پیش لفظ سے ہی انکار کرتے ہیں۔

اس تناظر میں جناب وزیرِ اعظم کا بیان قابلِ ستائش ہے۔ نواز شریف کا جمعہ کو رائے ونڈ میں کہنا تھا کہ ان کی حکومت صرف انہی عناصر سے مذاکرات کرے گی جو 'آئین اور ملکی سالمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔'

امید کرتے ہیں کہ وزیرِ اعظم اپنے الفاظ کا پاس رکھیں گے اور اس سنہرے اصول پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

انگریزی میں پڑھیں

ڈان اخبار