پاکستان میں اقلیتی مادری زبانیں
پچھلے سال ایک اخباری مضمون میں لکھا تھا؛ "مجھے انگلش کی ضرورت ہے کہ آج کی دنیا میں اس کے بغیر انسان علوم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا، مجھے اردو پسند ہے کہ اس میں غالب، منٹو اور فیض احمد فیض جیسے لوگوں نے لکھا ہے؛ مجھے پشتو سے نسبت ہے کہ اس کے ذریعے میں غنی خان، رحمان بابا اور دیگر کے خیالات تک پہنچتا ہوں لیکن محبت مجھے صرف توروالی سے ہے کہ یہ وہ زبان ہے جس میں میں نے پہلے الفاظ ادا کئے جب میں بولنے کے قابل ہوا اور جس میں میں خواب دیکھتا ہوں۔"
پاکستان میں 69 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مگر "قومی زبان" اردو اور "صوبائی زبانوں" پشتو، سندھی، پنجابی اور بلوچی کے علاوہ دیگر زبانوں کا علم کم ہی لوگوں کو ہوگا۔ بہت سارے لکھاری اور ماہرین ان دیگر زبانوں کو زبان ماننے کو بھی تیار نہیں۔ وہ ان کو 'لہجے' یا پھر 'بولی' ہی کہتے ہیں۔ بولی کسی حد تک صحیح بھی ہے اگر اس سے ان افراد کا مطلب ان زبانوں میں تحریر کے رواج کا نہ ہونا ہو۔
پاکستان میں کئی اور مسئلوں کی طرح زبان اور لسانی شناخت کا مسئلہ شروع دن سے رہا ہے۔ پاکستان میں "ثقافتی اور لسانی تکثیریت" کے بجائے "یکسانیت" پر ہمیشہ زور دیا گیا ہے اور جن لوگوں نے اس نکتہ نظر سے اختلاف کیا ان کو غدّار قرار دیا گیا۔
غدّاری کے اس نظریے کی بنیاد خود بانی پاکستان حضرت قائد اعظم نے رکھی جب انہوں نے 1948 میں ڈھاکہ میں زور دیکر کہا؛
"مجھے ایک بات بڑی واضح طور پر کہنے دیں کہ صوبے کی زبان جو بھی ہو لیکن پاکستان کی قومی زبان اردو ہی ہوگی اور جو اس سے اختلاف کرے گا وہ 'ملک دشمن' ہوگا۔" واضح رہے کہ قائد اعظم کی یہ تقریر انگریزی میں ہی تھی۔
بنگالی جو کہ برصغیر ہند میں آزادی کی تحریک میں بڑے شد و مد سے شریک تھے، روز اوّل سے اس رجحان کے مخالف تھے جس میں اردو کو مسلمانوں کی شناخت کا واحد ذریعہ گردانا گیا۔ انہوں نے اپنے تحفظ کا اظہار بیسویں صدی کے اوائل میں ہی کیا تھا۔ لیکن ان کی زبان کو ہمیشہ یہ کہہ کر رد کیاگیا کہ وہ "ہندوانا اثرات" رکھتی ہے۔
یہ غالباً قائد اعظم اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی تقریروں کا ہی اثر تھا کہ آخر کار 1952ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء نے پر تشدّد احتجاج کیا اور نتیجتاً کئی طلباء 21 فروری کو پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے۔
دنیا میں اپنے لسانی حق کے لئے شائد یہ سب سے بڑی تحریک تھی جو ایک اکثریتی زبان کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے خلاف چلائی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس دن کی نسبت سے یونیسکو نے 21 فروری کو 'مادری زبانوں کا عالمی دن' قرار دیا۔
ہمارے قائدین کے "یکسانیت کی جنون" نے پاکستان کو ایک تکثیری انسانی معاشرے میں تبدیل نہ ہونے دیا۔ انہوں نے ہمیشہ اس نئی نویلی قوم کو یکجا رکھنے کی خاطر تاریخ سے متصادم حکمت عملیوں کا سہارا لیا اور بلاخر پاکستان دو لخت ہوا۔ رہا سہا پاکستان بھی بس اب جی رہا ہے کیوں کہ اس پر اب بھی وہی طبقہ مسلّط ہے جو تاریخ کی الٹ سمت میں سفر پر ترجیح دیتا ہے۔
پاکستان بننے سے پہلے اردو زبان کو قومی تشخص کی علامت بنادیا گیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اسے "اسلامایا" گیا اور یوں اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان قرار دیکر ہندی سے الگ زبان بنانے کی کوشش کی گئی۔
واقعتاً، ہندی-اردو میں کوئی بڑا لسانی تفرق نہیں ماسوائے ان الفاظ کے جو اردو میں فارسی سے یاپھر عربی سے ڈالے گئے ہیں ورنہ دونوں کے قواعد اور ہیت ایک جیسی ہی ہے صرف رسم الخط کا فرق ہے اور یہ فرق کبھی بھی زبانوں کو الگ نہیں کر سکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو مغربی پنجاب کی پنجابی اور مشرقی پنجاب کی پنجابی بھی دو الگ زبانیں ہوتیں کیو نکہ ایک عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور دوسری گورمکھی میں۔
اردو کو "اسلامیانے" کا یہ عمل بہت پہلے سے شروع ہوا تھا۔ اس تحریک میں اردو قدیم کے بڑے بڑے اساتذہ جیسے امیر خسرو، ولی دکنی، انشاءاللّہ خان انشاء اور محمد حسین آذاد وغیرہ جیسے اکابر بھی شامل تھے۔ سید سلمیان ندوی اور مولوی عبدالحق نے بھی بعد میں اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور اردو کو "مسلمان" ثابت کرنے کی خاطر تاریخ کا بھی خیال نہیں رکھا۔
ایک طرف اگر "ہندوستانی زبان" کو 'اردو' کا نام دے کر اور مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد سے منسلک کرکے "عربیایا" گیا تو دوسری طرف اسے 'ہندی' کا نام دیکر "سنسکرتایا" گیا۔ پاکستان بننے کے بعد اسلامیانے کا یہ عمل اور شدّت اختیار کیا گیا۔
جب کوئی ملک کسی خاص قومی پس منظر کی بجائے ایک مبہم نظریے پر قائم کیا جاتا ہے تو اس کو استبداد اور جبر سے یا پھر کسی بیرونی دشمن کی موجودگی یا "تصّور و تخلیق" سے منظّم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تب اقلیتیوں کو کچلا جاتا ہے اور اس کے کئے غدّاری کے فتوے ہمہ وقت تیار رکھے جاتے ہیں۔
یہ سب پاکستان میں آزمایا گیا اور مسلسل آزمایا جاتا ہے۔ پاکستان کو ایک نظریے، ایک زبان اور ایک قوم کے مثالیت پسندانہ عمل سے گزارا گیا۔ نتیجے میں نظریے نے کئی گروہوں کو جنم دیا جو باہم متصادم ہیں اور ہمہ وقت دست و گریبان بھی۔ رہ گئی زبان کی صورت میں "یک رنگی"، وہ بھی کامیاب نہ ہوسکی۔ الٹا رنجشوں کو پروان چڑھاتی رہی۔
"محّب وطن" حلقوں کی طرف سے مسلسل کوشش کے باوجود اردو کو وہ مقام نہیں دیا سکا جس کا ذکر آئین اور تعلیمی حکمت عملیوں میں بار بار کیا گیا۔ تاہم اس عمل کا اثر دوسری لسانی اکائیوں پر بہت برا ہوا۔ ریاست کی جانب سے مسلسل انکار کی بدولت ان اکائیوں کی شناخت اور زبانیں ختم ہونے لگیں۔ ان زبانوں میں اکثریت اب معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں اور کئی ایک تو پہلے سے ہی مٹ چکی ہیں۔
ان میں کئی زبانیں شمال مشرقی پاکستان میں بولی جاتی ہیں۔ ان زبانوں میں انڈس کوہستانی، کھوار، کلاشہ، پلولہ، شینا، وخی، بروشسکی، بلتی، دمیلی، گاؤری اور توروالی وغیرہ شامل ہیں۔ دو پاکستانی زبانیں حالیہ سالوں میں مٹ چکی ہیں۔ ڈوماکی گلگت بلتستان میں بولی جاتی تھی جبکہ اشوجو سوات کے بشیگرام وادی میں بولی جاتی تھی۔
یہ زبانیں اپنے بولنے والوں کی طرح کئی مسئلوں سے دوچار ہیں۔ تقریباً ساروں میں کوئی standardized رسم الخط موجود نہیں اور اسکی وجہ سے ان زبانوں کو لکھنے کا رواج عام نہیں ہوا۔ ان زبانوں میں البتہ لوک ادب اپنی ہر صورت میں موجود ہے تاہم یہ ادب سینہ بہ سینہ نسلوں میں منتقل ہوتا ہے۔ لکھائی کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے مقامی حکمت اور تاریخ کے یہ خزینے معدوم ہوتے جارہے ہیں۔
ان کمیونیٹیوں میں "لسانی تبدیلی" یعنی language shift کا عمل تیز تر ہے کیونکہ ریاستی عدم دلچسپی کی وجہ سے لوگ اپنی زبانوں کو ترقی میں رکاوٹ سمجھ رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی زبان بھی اسکولوں میں ذریعہ تعلیم نہیں اور نہ ہی مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے بچّوں اور نوجوانوں میں اپنی زبان چھوڑنے کا عمل تیز ہے۔
پاکستان میں جتنی بھی تحقیق زبانوں پر ہوئی ہے اس میں ان زبانوں کا خاص ذکر نہیں کیونکہ ان لوگوں کی موثر سیاسی نمائندگی نہیں اور پاکستان میں زبان کا مسئلہ شروع دن سے تعلیمی سے ذیادہ سیاسی رہا ہے۔
ان زبانوں کے بولنے والے ترقی کے لحاظ سے marginalized یعنی دھتکارے ہوئے ہیں۔ ان میں سے چند ایک کو کہ جن کا عقیدہ مختلف ہے باقاعدہ دہشت گردی کا بلاواسطہ خطرہ لاحق ہے جیسے کہ حالیہ دنوں میں کالاش اور اسماعیلی برادری کو دھمکی دی گئی ہے۔
میڈیا کے اس دور میں کہیں بھی ان زبانوں میں پروگرامز تو کجا ان کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ ایسے میں خدشہ ہے کہ بہت جلد یہ زبانین ختم ہوجائینگیں باوجود ان اقدامات کے جو نجی سطح پر ان زبانوں کی بقا کے لئے کئے جاتے ہیں۔
ایسے نجی اداروں میں "ادارہ برائے لسانیات" Forum for Language Initiative سر فہرست ہے جو کہ شمالی پاکستان میں بولی والی ان زبانوں کی بقا اور ترویج کے لئے گذشتہ ایک دہائی سے کام کر رہا ہے۔ یہ ادارہ ان زبانوں کے بولنے والوں کو لسانیات linguistics اور ان زبانوں میں تعلیمی مواد کی تیاری میں تربیت دیتا ہے جس کی بدولت ان لسانی اکائیوں میں سے چند ایک میں "مادری زبان پر مبنی کثیر لسانی تعلیمی منصوبے" mother tongue based multilingual education programs شروع کئے جاچکے ہیں۔
اس ادارے کے ساتھ ساتھ مقامی آبادیوں میں بھی کئی ایک غیر سرکاری تنظیمں کام کر رہی ہیں جن میں ادارہ برائے تعلیم و ترقی IBT، انجمن ترقی خوار، شینا لینگوئج اینڈ کلچرل پروموشن سوسائٹی، کوہستانی ثقافتی و ترقیاتی پروگرام، گاؤری کمیونیٹی ترقیاتی پروگرام، انجمن ترقی خوار اور بکروال موبائل سکول سسٹم وغیرہ شامل ہیں۔
ان تنظیموں کا کام بہت قابل ستائش ہے لیکن ناکافی۔ عالمگیریت کی اس دوڑ میں ایسے غیر سرکاری اقدامات ان زبانوں کی بقا کے لئے ہر گز ناکافی ہے۔ جب تک ہماری ریاست ان زبانوں کی سرکاری سرپرستی نہ کریں اور جب تک حکومت ان زبانوں کو ابتدائی تعلیم کے لئے ذریعہ تعلیم medium of instruction نہ بنائے ان زبانوں کی آئیندہ نسلیں اپنی زبانیں بھول جائینگی اور یو ں پاکستان اپنی ثقافتی ورثے کے ایک بڑے حصّے سے محروم ہو جائے گا۔
زبیر توروالی محقق، لکھاری اور سماجی کارکن ہیں جو سوات کوہستان میں ادارہ برائے تعلیم و ترقی IBT کے سربراہ کی حثیت سے خدمات سرانجام دیتے ہیں