جوڑ توڑ کی چال
حکومت کی مذاکراتی ٹیم کا اپنے موقف پر سختی سے قائم رہنا حوصلہ افزاہے۔ چالاک تحریکِ طالبان پاکستان سنگین الزام تراشیاں کر کے مزید بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ گذشتہ روز ایک بار پھر عسکریت پسندوں کی جانب سے اپنی شرائط دہرائی گئیں لیکن حکومتی کمیٹی نے مشروط جنگ بندی کو مسترد کردیا۔
ٹی ٹی پی نے دعویٰ کیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز تواتر سے عسکریت پسند گروہوں کے ارکان اٹھارہی ہیں اور ملک کے مختلف حصوں میں ان کی بوری بند لاشیں پھینکی جارہی ہیں۔
یہ ان کی مخصوص چال ہے،جس سے تجویز ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی کی پُرتشدد کارروائیاں براہ راست حکومت کی جانب سے اُکسانے والے اقدامات پر ردِ عمل ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اس طرح کے الزامات کو وہ ہمیشہ اپنی پُرتشدد کارروائیوں کو جواز فراہم کرنے کی خاطراستعمال کرتے ہیں۔
اگرچہ ٹی ٹی پی بدستورمذاکرات کاروں کے لیے مشکلات کھڑی کررہی ہے لیکن اس سے ظاہر کیا ہوتا ہے: بہرحال، ٹی ٹی پی پہلے ہی بہت سا وقت حاصل کرچکی، مذاکرات میں تعطل سے اسے مزید وقت ملے گا۔
دوسری جانب، مسئلے کے حل کی خاطر حقیقی حکومتی عزم، اس کی اپنی کمیٹی کی صورت داؤ پر ہے جو پیچیدہ معاملہ ہے۔ جب حکومتی کمیٹی کے سب سے اہم رکن عرفان صدیقی غیر مشروط جنگ بندی کے مطالبے کے ساتھ سامنے آتے ہیں تو اس میں حقیقت ہے۔
جناب صدیقی نواز شریف کے مشیر ہیں جنہیں اُن تک براہ راست رسائی حاصل ہے لہٰذا جب وہ کچھ کہتے ہیں تو اُن لفظوں میں، معاملے پر خود وزیرِاعظم کی سوچ جھلکتی ہے۔ یہ حکومت کی جانب سے مسئلے کے حل کی خاطر نئے عملی عزم کی حوصلہ افزاعلامت ہوگی۔
علاوہ ازیں، یہاں ایک اور حقیقت بھی سامنے ہے کہ ٹی ٹی پی کی پُرتشدد کارروائیوں سے نمٹنے کی خاطر حکومت واضح طور پر کیا کرنے جارہی ہے۔
اگرچہ بہت سارے سویلین اہداف نشانہ بنائے جاچکےاور بہت سارے شہریوں کی اموات ہوچکیں لیکن یہ سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکتیں ہی ہیں جس سے حکومتی موقف میں سختی آئی ہے۔
یہ علم میں ہے کہ جواب میں دباؤ بڑھانے کی اہلیت کے بغیر، فوجی قیادت ٹی ٹی پی کی طرف سے کیے گئے حملوں پر ناخوش ہے لیکن اگر حکومت حل کے لیے اپنے موقف پر غیر متزلزل عزم کی عکاسی کرتے ہوئے، سادہ طور پر انہیں مناسب کاروائی کا حکم دے تو جنہیں حکومت پر شبہات ہیں، انہیں حیرت ہوسکتی ہے۔
اگر حکومت اپنی ہی مذاکراتی کمیٹی کی بھرپور پشت پناہی کرے تو پھر ٹی ٹی پی کو صندوق میں بند کیا جاسکتا ہے۔
ذیلی تنظیموں، گروہوں اور دیگر شدت پسند عناصر جو اس سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں، انہیں تصفیے کی خاطر قیادت کی مذاکراتی ترجیح کی یقینی اطاعت پر مجبور نہ کرکے، ٹی ٹی پی بے نقاب ہوجاتی ہے کہ اسے مذاکرات یا تصفیے پر واقعی کوئی یقین نہیں۔
جوڑ توڑ کے لیے یہ ٹی ٹی پی کی عیارانہ چال ہوسکتی ہے لیکن ان چالاکیوں اور ہیرا پھیری سے، بنیادی بہاؤ متاثر ہورہا ہے: اگر، ہم پھردہراتے ہیں اگر، ریاست ڈگمگائے بغیر اپنےموقف پرڈتی رہے تو پھر ٹی ٹی پی کے لیے بہت ہی کم گنجائش باقی بچتتی ہے۔