ذہنی سرمایہ کی ہجرت
دل ٹوٹنے والی باتیں ہم پاکستانیوں کے لئے اجنبی نہیں ہیں، لیکن اسکے باوجود بھی ایک چیز نے مجھے اداس کردیا- کالم نگار، کرس کارک نے اپنے ایک حالیہ مضمون "دی مسنگ" (گمشدہ لوگ) میں ان بیشمار لوگوں کا ذکر کیا ہے جو اپنی زندگیوں کو لاحق خطرات کے پیش نظرچپ چاپ، خاموشی سے ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں کیونکہ انھیں خوف ہوتا ہے کہ وہ ظلم و ستم کا نشانہ بن جائنگے-
یہاں 'چھوڑ دینا' صحیح لفظ نہیں ہے- جیسا کہ مسٹر کارک کا کہنا ہے، "فرار ہونے کا مطلب ہے وہ سب کچھ اپنے پیچھے چھوڑ جانا جو آپ کی زندگی بھر کی کمائی تھی- آپ صرف وہی کچھ لیجا پاتے ہیں جو آپ کے تھیلے میں آجائے --- جاتے جاتے آپ دروازہ پر تالا لگادیتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ اسے دوبارہ نہ کھول پائنگے- اور پھر آپ غائب ہوجاتے ہیں-"
عیسائی، احمدی، ہندو، سکھ ---- پاکستان کی اقلیتوں کے زخم آہستہ آہستہ رس رہے ہیں، انھیں زخم لگا لگا کر ہلاک کیا جارہا ہے، ہر زخم عدم برداشت کے چاقو سے لگایا جارہا ہے-
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کی ریاست خود اپنے ہاتھوں انگنت، سنگین طریقوں سے ناکام ہورہی ہے- اس قسم کے واقعات خواہ کہیں بھی واقع ہوں ہولناک سمجھے جائنگے --- لیکن اس ملک کی تشکیل کی جو وجہ بتائی جاتی ہے --- یعنی یہ کہ پاکستان اس لئے بنایا گیا کیونکہ ان دنوں ہندوستان مین مسلم اقلیتیں خوفزدہ تھیں --- تو اس قسم کے واقعات اور بھی زیادہ سنگین اور شرمناک نظر آتے ہیں-
تب بھی، پاکستان کی ریاست اور معاشرے میں ایسے واقعات کی کمی نہیں جوشرمناک نہ ہوں؛ فی الحال اس کو چھوڑئیے- آئیے، اس کے بجائے، آبادی کے ایک اور حصے کا جائزہ لیں جو ملک چھوڑ کر جارہا ہے، جو ملک کے مستقبل کے لئے اتنا ہی نقصان دہ ہے لیکن جس کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے-
پاکستان کے مخصوص حالات کے تحت، افراد کو صرف اپنے مذہب اور اعتقادات کی بناء پر ریاستی اور غیر ریاستی عناصر، دونوں ہی کی جانب سے ظلم و ستم کا سامنا نہیں ہے بلکہ اگر آپ عورت ہیں تو بھی آپ نشانہ بن سکتی ہیں- اگرکوئی صحافی حقائق کو بے نقاب کرے جو کسی کو پسند نہ ہوں تو وہ جلد یا بدیر نشانہ بن سکتا ہے-
یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں ایک وزیر اعظم کو پھانسی دی گئی اور دوسرے کو بیدردی سے قتل کردیا گیا؛ جہاں ایک صوبے کے گورنر کو خود اسی کے سیکیورٹی گارڈ نے ہلاک کردیا کیونکہ انھوں نے ایک عیسائی عورت پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی تھی-
چنانچہ ان لوگوں میں جو خاموشی سے ملک چھوڑ کر جارہے ہیں یا ممکن ہو تو جانے کی تیاریاں کررہے ہیں لکھاری اور فنکار، شاعر اور ناول نگار، موسیقار اور ماہرین شامل ہیں-
یہ لوگ اس لئے نہیں جارہے کہ ان کی زندگیوں کو کوئی فوری خطرہ لاحق ہے، بلکہ وہ جگہ جہاں وہ رہتے اور سانس لیتے ہیں: خیالات اور نظریات کی دنیا میں خطرات بڑھتے جارہے ہیں-
گزشتہ چند برسوں کے دوران ان موضوعات کی تعداد میں افسوس ناک حد تک اضافہ ہوا ہے جس پر لوگ بات کرنے سے کتراتے ہیں، بحث مباحثے کا دائرہ سکڑتا جارہا ہے- آپ کا وہ ناول جو مکمل ہو کر شائع ہوگیا، جن تصویروں کی آپ نے نمائش کی، جس ڈرامے میں آپ نے کام کیا ہو، وہ تحقیق جو آپ کررہے ہوں، ان میں سے کچھ بھی آپ کی مصیبت کا باعث ہوسکتا ہے-
ہوسکتا ہے آپ کی زندگی یا صحت کو فوری طور پر کوئی خطرہ نہ ہو، لیکن یہ کبھی بھی ممکن ہے؛ ملالہ یوسف زئی کو بہرحال اسی لئے گولی ماری گئی تھی کہ اسے اس نظریہ پر یقین تھا کہ عورتوں کو تعلیم پانے کا حق ہے-
اگر آپ کو یہ صورت حال سنگین لگتی ہے تو اس سے بھی زیادہ سنگین حالات موجود ہیں: وہ لوگ جن کا تعلق نظریات اور تخلیقی عمل سے ہے، اگر انھیں معمولی سا اندازہ بھی نہ ہو کہ وہ متنازعہ بن سکتے ہیں، انھیں بھی پاکستان میں اپنے پیشہ ورانہ مستقبل کے امکانات نظر نہیں آتے-
وہ موسیقار جو محبت کے رسیلے گیت لکھنا چاہتے ہیں وہ ایک ایسے ملک میں روزی نہیں کما سکتے جہاں سیکیورٹی کے خدشات کی بناء پر کنسرٹ منعقد نہیں ہوسکتے، ان پر زندگی تنگ ہوجاتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ بیرون ملک بھی ان کا مسقبل روشن نہ ہو- ہمارے محبت کے گیت لکھنے والے موسیقار یا ڈرامہ نویس، جنھیں دیکھنے اور سننے والے لوگ ملک بھر میں موجود ہیں ملک سے باہر جہاں عام طور پر اردو سمجھنے والے لوگ کم ہی ہوتے ہیں، مشکل ہی سے روزی کما سکتے ہیں-
ایک اور طبقہ جو ایسے ہی فیصلے کررہا ہے وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ پیشہ ور ماہرین: اشرافیہ، ڈاکٹرز، بینکرز، وکلاء وغیرہ- ملک کے ایک صف اول کے میڈیکل کالج نے حال ہی میں اس مسئلہ پر روشنی ڈالی- ادارے نے بتایا کہ اسکے بہترین فارغ التحصیل طلباء ملک چھوڑ کر جارہے ہیں. جن کے پاس ایسا تجربہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں کہیں بھی روزگار حاصل کرسکتے ہیں-
اسی دوران، چند مہینے قبل ایک اخبار میں ایک مضمون شائع ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ کس طرح امریکہ میں 'مشکل' حالات والی ملازمتوں پر --- دیہاتوں، چھوٹے چھوٹے گاؤں اور قصبوں میں --- پاکستانی اور ہندوستانی ڈاکٹرز، نرسیں اور دیگر طبی پیشے کے لوگ کام کررہے ہیں- دنیا کے اس حصے میں عوام کو وہ خدمات فراہم کی جارہی ہیں جو صحت عامہ کے نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، مضمون میں لکھا تھا؛
"ذہنی سرمایہ کی ہجرت کے الفاظ معمولی لگتے ہیں- لیکن اسکے نتائج بیحد سنگین ہیں-
ترجمہ: سیدہ صالحہ