پاکستان

دہشت گرد حملے مذاکرات کو متاثر کرسکتے ہیں: سینیٹ میں حکومتی بیان

سینیٹ میں حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کی جانب سے حالیہ حملوں پر اظہار تشویش کے بعد قائدِ ایوان راجہ ظفرالحق نے یہ بیان دیا۔

اسلام آباد: حکومت نے کل بروز منگل کو سینیٹ کہا ہے کہ دہشت گرد حملوں کی حالیہ لہر سے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ جاری امن مذاکرات پر بُرا اثر پڑ سکتا ہے۔

سینیٹ میں حزبِ اختلاف کی جانب سے حکومت پر تنقید کی گئی کہ اس نے عسکریت سے دہشت گردانہ سرگرمیوں کو روکنے کا مطالبہ کیے بغیر ان کے ساتھ مذاکرات شروع کردیے ہیں، اس کے جواب میں قائدِ ایوان راجہ ظفرالحق نے کہا ’’دہشت گردانہ حملے مذاکرات کے انعقاد کے باوجود جاری ہیں، اس سے امن کی بحالی کے عمل کو نقصان پہنچے گا اور مذاکرات کے لیے عوامی حمایت بھی کم ہوجائے گی۔

راجہ ظفرالحق نے کہا کہ کچھ پڑوسی ممالک اپنے ایجنٹوں کو استعمال کررہے ہیں تاکہ پاکستان کو غیر مستحکم کیا جائے اور امن مذاکرات میں خلل ڈالا جاسکے۔

پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے اپوزیشن کے اراکین نے کہا کہ حکومت کو چاہیٔے تھا کہ وہ پہلے طالبان کو مطلع کرتی کہ کسی بھی قسم کی بات چیت کو شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ وہ پہلے اپنے حملوں کو روک دیں۔

عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں خیبر پختونخوا کی حکومت کی ناکامی پر تنقید کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر رضا ربّانی نے کہا کہ جب سے مذاکرات کا عمل شروع ہوا ہے، اب تک بیس واقعات میں 120 افراد ہلاک کردیے گئے ہیں۔

قائدِ حزبِ اختلاف چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ طالبان نے حالیہ حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے، تو یہ ان کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔

انہوں نے طالبان کی جانب سے کالاش قبیلے کو دی جانے والی دھمکیوں پر تشویش کا اظہار کیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر کالاش قبائل نے اسلام قبول نہیں کیا تو ان کا صفایا کردیا جائے گا۔

عوامی نیشنل پارٹی کے زاہد خان نے کہا کہ اگر حکومت طالبان کے خلاف کارروائی کے قابل نہیں ہے تو اسے چاہیٔے کہ وہ ملک ان ہی کے حوالے کردے۔

حزبِ اختلاف کے اراکین کی جانب سے وزیراعظم کی سینیٹ سےمسلسل غیرحاضری پر علامتی واک آؤٹ کیا گیا۔

رضا ربّانی کی ایک تحریک پر سینیٹروں نے حکومت کی نجکاری پالیسی پر ایک بحث شروع کی۔

اس کے علاوہ انہوں نے وزیرِ مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد کے ایک بیان پر اپنی حیرت کا اظہار کیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ قبائلی علاقوں میں مقیم مسیحیوں کو ڈومیسائل حاصل کرنے کا حق نہیں ہے، اس کے بجائے انہیں مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا ہے۔