نقطہ نظر

پائپ لائن حملہ

رحیم یار خان میں گیس تنصیبات پر حملہ، سیکیورٹی کے ناکافی اقدامات خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔

اتوار کی شب رحیم یار خان کے قریب سے گذرنے والی، گیس سپلائی کی تین مرکزی پائپ لائنوں پر دھماکوں کے باعث، پنجاب کے زیادہ تر علاقوں میں شہریوں کو اڑتالیس گھنٹوں تک مجبوراً گیس سے محروم رہنا پڑا۔

اگرچہ منگل کی سہ پہر تک گھریلو صارفین کے لیے بعض علاقوں میں مکمل جبکہ کہیں کہیں جزوی فراہمی بحال کردی گئی تھی تاہم سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ کا اپنے تجارتی و صنعتی صارفین سے کہنا ہے کہ محدود گیس سپلائی کے لیے، پائپ لائنوں کی مکمل بحالی کے واسطے، انہیں مزید ایک روز انتظار کرنا ہوگا۔

پنجاب کے متعدد علاقوں اور ملک کے دیگر حصوں میں بھی، گیس سپلائی کے تعطل کے باعث آزادانہ طور پر جاری لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بھی بڑھ گیا، جس کی وجہ گیس کے تعطل کے سبب بجلی کی پیداوار میں کمی ہے۔

بجلی کی قلت اور گیس سپلائی میں تعطل کے نتیجے میں، کارخانوں کو پیداواری نقصان اٹھانا پڑا یا پھر انہیں پیداواری ڈیڈلائن کی مجبوری کے سبب متبادل ذرائع اختیار کرنا پڑے۔ گھریلوصارفین کی پریشانیوں کو دور کرنے یا تجارتی و صنعتی صارفین کو مالی نقصانات سے بچانے کی خاطر، حکومت نے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے۔

اس سانحے کے نتیجے میں کم از کم ایک ہلاکت ہوئی اور بے شمار لوگوں کو مجبوری کی حالت میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر، جانیں بچانے کی خاطر بھاگنا پڑا۔ اس واقعہ نے ملک بھر میں اس طرح کی تنصیبات سے لاحق خطرات کو بے نقاب کردیا ہے۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ جب ایک گیس پائپ لائن دھماکے سے پھٹ گئی ہو۔ ماضی میں بھی، پنجاب میں ایک جبکہ بلوچستان میں ایسا کئی مرتبہ ہوچکا۔ گیس پائپ لائنوں پر حملوں کی زیادہ تر ذمہ داری بلوچ علیحدگی پسندوں نے قبول کی تھی۔

تاہم، پنجاب میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا حملہ ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علیحدگی پسند اس صوبے میں اتنے اندر گھس کر، اہم تنصیبات کو نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں۔ (اطلاعات کے مطابق بلوچ ری پبلکن آرمی نے رحیم یار خان گیس پائپ لائن پر دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔)

ایک سینئر پولیس افسر کا کہنا ہے کہ اسی مقام پر گذشتہ ماہ بھی پائپ لائن کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن خوش قسمتی سے یہ کامیاب نہ ہوسکی تاہم اس واقعے کے بعد بھی سوئی ناردرن کمپنی، گیس پائپ لائن کی حفاظت یقینی بنانے کی خاطر ٹھوس اقدامات کرنے میں ناکام رہی، جس کی بڑی وجہ کمپنی حکام کا افسرِ شاہی رویہ ہے۔

امید کی جاسکتی ہے کہ کمپنی، اور اس طرح کی اہم تنصیبات کی حفاظت کے ذمہ دار متعلقہ اداروں کے حکام کو، غفلت کی گہری نیند سے جگانے کے واسطے یہ واقعہ کافی ثابت ہوگا۔

انگریزی میں پڑھیں

ڈان اخبار