نقطہ نظر

میری بسنت لوٹا دو!

یہ ایک تہوار کی موت نہیں بلکہ ‘‘قومی خودکشی’’ ہے. اس میں کوئی سامراجی سازش بھی نہیں کہ اس کے قاتل ہم خود ہیں

گذشتہ دنوں پنجاب سرکار نے پہلے بسنت منانے کا پروگرام بنایا مگر لگتا یوں ہے کہ پھر پرویز الہٰی کی تقلید میں "درووٹ" لیا جائے گا۔ البتہ اس سال پنجاب کی بجائے سندھ میں بسنت بوجوہ، ضرور منائی جائے گی۔

میری بسنت گذشتہ چند دہائیوں سے سیاست کے گرداب میں ایسی پھنس چکی ہے کہ رب خیر کرے۔ 1966 کے اکتوبرمیں 29 ریلوے روڈ، گوالمنڈی چوک میں موجود جس گھر میں پیدا ہوا اس کا ایک کوٹھا آس پاس کے گھروں سے خاصا اونچا تھا۔

اس چار منزلہ مکان میں میرے خاندان والے 1947 میں امرتسر سے آئے تھے۔ بچپن سے میں نے آس پاس کوٹھوں پر دسمبر، جنوری تا اپریل ہر سال بھرپور گڈی بازی دیکھی۔

ویسے تو مئی جون کی شدید دوپہروں کو بھی کوٹھے پر جا کر گڈیاں اڑانا محبوبہ مشغلہ رہا مگر فروری کی بسنت تو بس ایسا "نوروز" تھا جس کا مقابلہ ہند سندھ میں کہیں نہیں تھا۔ کوٹھے سجائے جاتے تھے، عورتیں اور لڑکیاں رنگ برنگے کپڑوں میں کبھی گڈیاں اڑاتے اور کبھی ڈور کا "پنّہ" پکڑے نظر آتی تھیں۔

قسم قسم کے کھانے جیسے ہریسہ، تکا کباب، کھٹی، مولیوں کا سالن…. کیا کیا نہیں پکتا تھا بسنت کی مناسبت سے۔ کیا بچے، کیا جوان، کیا بوڑھے، ایسا سماں ہوتا تھا جس میں رنگ، نسل، زبان، مذہب، طبقات اورعمر کی تقسیم یکسر ختم ہو جاتی تھی۔

ذرا غور کریں ضیا شاہی کے بدترین دور میں بھی بسنت کا تہوار "راحت جاں" تھا۔ آسمان دلہن کی طرح سج جاتا تھا اور زمین والے اس نظارے سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

ملک کے دیگر شہروں اور صوبوں سے لوگ انھی دنوں لاہور آتے اور اس رنگارنگی کا حصہ بنتے تھے۔ داتا صاحب، میاں میر، مادھو لال حسین، بلھے شاہ اور پیر عنایت قادری کے میلوں کی طرح "بسنت میلہ" میں بھی لوگ جوق درجوق شریک ہوتے تھے۔ البتہ بسنت کے دن انھیں کسی مزار پر زیارت کی بجاے بس اپنا کوٹھا ہی سجانا ہوتا تھا۔

کچھ مخصوص ذہنیت کے لوگوں کو اس تہوار پر پہلے دن سے اعتراض تھا مگر ان کی آواز پر لوگ دھیان نہیں دیتے تھے۔ یہ تہوار لاہور کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی وقفے وقفے سے ہوتا تھا کہ قصور کی "بسنت" کو ایک منفرد مقام حاصل تھا۔

ویسے جسٹس جاوید اقبال نے تو خود علامہ اقبال کی پتنگ بازی کا ذکر زور و شور سے کیا ہے۔ اب ہم اقبال و جناح سے زیادہ عقلمند اور جہاندیدہ ہو چکے ہیں اس لیے بسنت بھی "پابند سلاسل" ہے۔

1990 کی دہائی میں اس تہوار نے خاص رنگ اپنایا اور اب ملٹی نیشنل کمپنیوں، بینکوں وغیرہ نے بھی مہنگے ہوٹلوں میں بسنت تہوار پر پروگرام شروع کر دیے۔

ہوٹلوں کے پروگراموں کو میڈیا پر تو کوریج ملنی تھی کہ ان کے پیچھے اشتہار دینے والی کمپنیوں کے سرمایہ کی طاقت تھی۔ مگر پھر بھی 'جو مزہ چھجو کے چوبارے، وہ نہ بلخ، نہ بخارے' کے مطابق بسنت کا اصل مزہ ان ہوٹلوں میں نہ تھا بلکہ عوامی سطح پر تھا۔

گڈی لوٹنے، بو کاٹا کی بڑھکیں مارنے، اردگرد کے کوٹھوں پر تاکا جھانکی کرنے، باآواز بلند ٹیپ ریکارڈر پر گانے لگانے اور ساتھ والوں کی چھتوں پر چھلانگیں مارنے کا مقابلہ بھلا "ہوٹلی بسنت"’ سے کیسے ہو سکتا تھا۔

کم از کم 1999 تک اس تہوار میں "دھاتی ڈور" کے استعمال بارے میں کسی نے سنا بھی نہیں تھا۔ پھر اس تہوار کو بطور "سافٹ ٹارگٹ" چن لیا گیا کہ نائن الیون کے ڈسے ہوؤں کا غصہ کہیں تو ٹھنڈا کرنا تھا۔ کیا باریش اور کیا بغیر داڑھی والے، سبھی اس جشن میں شامل رہتے مگر 21ویں صدی کی پہلی دہائی کے دوسرے نصف میں بسنت کو سیاسی جنگ کا ایندھن بنانے والوں کو تو کسی کی پروا نہیں تھی۔

جنرل مشرف بسنت منانے لاہور آتے تھے اس لیے "بغض معاویہ" میں مشرف مخالفت اور بسنت مخالفت کو بوجوہ نتھی کر دیا گیا۔ مشرف مخالف تو سب تھے کیونکہ وہ ایوب، یحییٰ اور ضیا کے چوتھے بھائی بھی تھے اور انہوں نے مقبول عام سیاستدانوں کو دیس نکالا دیا ہوا تھا۔ مگر سیاسی لڑای کو مذہبی رنگ دینا تو ہرکاروں کو خوب آتا ہے کہ تخریک خلافت سے تادم تحریر اس مشق کو بارہا دہرایا گیا ہے۔

اُردو پرنٹ میڈیا نے اس نئی بسنت مخالف مہم میں خصوصی کردار ادا کیا تو پھر نومولود الیکٹرانک میڈیا کیسے پیچھے رہ سکتا تھا کہ چینلوں میں اکثریت اسی اُردو پرنٹ میڈیا ہی سے تو آئی تھی۔

پھر الیکٹرانک میڈیا کو اپنی دھاک بٹھانی تھی کہ اس کے لیے "بسنت مخالفت" ایک نادر (نادر شاہ درانی والا) موقع ٹہری۔ یہ کہنے کی بجائے کہ حکومت دھاتی ڈور برآمد کرنے والوں کو پکڑے، تمام مہم بسنت پر پابندی کے اردگرد ترتیب دی گئی۔

کسی کو مشرف پر غصہ تھا تو کسی کو یہ غم کہ لاہور میں میلہ کیوں سجتا ہے۔ کوئی یہ سمجھتا تھا کہ پنجابیوں کو میلوں ڈھیلوں سے دور کرنا ضروری ہے۔ کوئی اپنی سیاست چمکا رہا تھا تو کسی کو انسانیت "اچانک" یاد آ گئی تھی۔

جو مذہبی گروہ کالج کے نوجوان بچوں کو "افغان جہاد" کی بھینٹ چڑھاتے تھے ان کے دل بسنت پر مرنے یا زخمی ہونے والوں پر پسیجنے لگے۔ پرویز الہٰی کی پنجاب سرکار نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا کیونکہ ان کی "بُکل میں چور"’ تھا۔

بس، یوں اس سیاست میں سر درد کا علاج یہ سوچا گیا کہ سر ہی کاٹ دیا جائے۔ اس شاہی فرمان کوعدالتوں، مذہبی و غیرمذہبی سیاستدانوں، فوجی آمروں، قانونی ماہروں، کالم نگاروں اور میڈیا دانشوروں نے جس خونی سیاہی سے رقم کیا اس کے دھبے جانے کب، کون دھوئے گا۔

2005 میں اس تہوار کو بحکم بند کر دیا گیا جبکہ 2007 میں عدلیہ مشرف لڑائی کا نزلہ اس تہوار پر گرا۔ ایسا کرتے ہوے ججوں، جرنیلوں، جرنلسٹوں، کالم نگاروں، سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں نے یہ بھی نہ سوچا کہ وہ پاکستانیوں سے ایک ایسا تہوار چھین رہے ہیں جو بلاامتیاز مذہب، نسل، طبقہ و گروہ منایا جاتا ہے۔

ابھی تک تو دھاتی ڈور برآمد یا تیار کرنے والے گرفتار نہیں ہو سکے، تو کیا ہم سمجھ جائیں کہ کالعدم تنظیموں کی طرح یہ بھی خفیہ والوں سے زیادہ طاقتور ہیں؟ یا یہ سب ایک سیاسی کھیل ہے جو خود اپنی ہی صورت بگاڑنے کے علاوہ کچھ نہیں۔

حیران نہ ہوں اس مسئلہ پر تمام مسلم فرقے یک جان تھے جبکہ اعتدال پسند پاکستانی ان سب کا منہ تک رہے تھے۔ یہ ایک تہوار کی موت نہیں بلکہ ‘‘قومی خودکشی’’ تھی جو ہمیں بند گلی کی طرف دھکیل رہی تھی۔ اس میں کوئی سامراجی سازش بھی نہیں کہ اس کے قاتل ہم خود ہیں۔

اب آئی ٹی والوں کو چاہیے کہ بسنت کی ویڈیو گیمیں (Video Games) بنائیں، موبائل Apps تیار کریں تاکہ اس قومی غلطی کا کسی حد تک سدباب ہو سکے جو بزرگوں نے کی تھی۔ بسنت ایک عوای تہوار تھا اور عوامی سیاست کے دعویدار ہی اس سے پہلو تھی برت رہے ہیں۔ کوئی ہے جو ہوس پرستوں کی سیاست کو مات دیتے ہوے باآواز بلند حکمرانوں سے کہے، "میری بسنت لوٹا دو"۔

عامر ریاض

عامر ریاض لاہور میں رہتے ہیں۔ تعلیم، بائیں بازو کی سیاست، تاریخ ہند و پنجاب ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔