اردو کے دس بہترین ناول
اس سے قبل اردو زبان کی دس بہترین سوانح عمریوں پر پڑھنے والوں نے جس بھرپور ردِ عمل کا اظہار کیا اس کے بعد میں نے کوشش کی ہے کہ اردو زبان میں شائع ہونے والے دس بہترین ناولوں کی فہرست پیش کروں۔
اس سے پہلے پیش کی گئیں فہرستوں کی طرح ناولوں کی یہ فہرست ان کی اہمیت، علمی ، ادبی اور ثقافتی اہمیت، مطالعے اور مناسبت کے تحت مرتب کی گئی ہے ۔ معاف کیجئے گا کہ اس میں نام نہاد ' مقبول فکشن' یا ڈائجسٹ ادب شامل نہیں یا وہ ادب جسے ڈرامہ دیکھنے والی خواتین سراہتی ہیں۔ لیکن اس بار بھی میں یہی کہوں گا کہ شاید ہی کوئی فہرست ایسی ہوسکتی ہے جس پر ہر ایک متفق ہوسکے۔
تو اگر آپ اس فہرست سے متفق نہیں تو دس بہترین ناولوں کی اپنی کوئی فہرست بنانے کی مکمل آزادی ہے۔ ایک وقت تھا جب نقاد اردو ناولوں کے متعلق مایوس تھے۔ کئی ایک نے کہا کہ عظیم ناول تو دور کی بات، اردو زبان میں تو ایک درجن ناول بھی ایسے نہیں جنہیں اچھے ناول قرار دیا جاسکے۔
لیکن ناول نگار اور نقاد، عزیز احمد اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ اپنے ایک مضمون میں انہوں نے کہا ہے کہ جنہوں نے اردو ادب کا مطالعہ نہیں کیا یا کسی ناول کو گہرائی میں نہیں پڑھا وہی اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔
ایک اور ادیب شہزاد منظر کہتے ہیں کہ آزادی کے بعد کئی اچھےناول لکھے گئے اور ان کا کہنا ہے کہ 1970 کے عشرے میں میں بہتر ناول منظرِ عام پر آئے۔
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ زرعی معاشروں میں شاعری کو نثر پر فوقیت حاصل تھی اور ناول صنعتی عہد کی پیداوار ہے۔ لیکن گزشتہ پندرہ برسوں میں اچھے اردو ناول تواتر سے شائع ہوتے رہے ہیں۔ مصنف عرفان جاوید کے مطابق لگ بھگ گزشتہ دس سال میں اردو ناولوں کا احیا ہوا ہے۔
:فسانہ آذاد
چونکہ شاید آج مشکل سے اسے ناول کا درجہ مل سکے ہم ابتدائی اردو ناولوں مثلاً مولوی نذیر احمد کے مراۃ العروس (1869) کو چھوڑ کر ایک شاہکار ناول کی بات کریں گے جسے پنڈت رتن ناتھ سرشار نے لکھا تھا۔
'فسانہ آزاد' (1878) میں منظرِ عام پر آیا اور اس پر عام اعتراض یہی کیا جاتا ہے کہ اس میں حقیقی پلاٹ کی کمی ہے اور اس کی ضخامت اسے بہت بھاری بھرکم ناول میں تبدیل کرتی ہے۔ لیکن دنیا کے عظیم ترین ناولوں کے ساتھ بھی یہی کچھ معاملہ ہے جن میں ' وار اینڈ پیس' اور ' دی برادرز کراموزوف' قابلِ ذکر ہیں۔
اس میں خالص اردو میں لکھنو تہذیب کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں ایک مسخرا نما کردار خوجی کا بھی ہے جسے اردو ادب کے اولین مزاحیہ کرداروں میں سے ایک قرار دیا جاسکتا ہے۔
امراؤ جان ادا: 1899 میں لکھا گیا یہ ناول، اردو ناولوں کے عروج کی ایک لحاظ سے علامت اور اشارہ تھا۔ ناقدین کی رائے اب بھی اس پر تقسیم ہےکہ امراؤ کوئی اصلی کردار تھا بھی یا نہیں لیکن یہ ناول مرزا ہادی رسوا کی فکشن پر زبردست مہارت کو ظاہر کرتا ہے۔ بظاہر یہ ایک طوائف کا زندگی نامہ ہے لیکن اسے انیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں لکھنؤ کے تہذیب اور معاشرے کا عکاس ناول قرار دیا جاسکتا ہے۔
گئودان: منشی پریم چند کے تمام ناولوں میں سے گئودان (1936) کو سب سے بہترین کام کا درجہ حاصل ہے۔ اس میں ہندوستان کے کسانوں کی تکلیف دو زندگی کو دکھایا گیا ہے۔ پریم چند نے دہقانوں پر ہونے والے ظلم کی نقشہ کشی کی ہے۔
پریم چند نے پہلے اردو زبان میں لکھنا شروع کیا تھا لیکن دھیرے دھیرے وہ ہندی زبان کی جانب بڑھتے گئے جبکہ گئودان تو سب سے پہلے دیوناگری رسم الخط میں لکھا گیا تھا اور اسے اقبال بہادر ورما ساحر نے اردو میں ڈھالا تھا۔ لیکن اب بھی اسے اردو ناول ہی قرار دیا جاسکتا ہے اور وہ بھی بہترین اردو ناولوں میں سے ایک۔
آگ کا دریا: اسے اردو زبان کا سب عظیم ناول بھی قرار دیا جاتا ہے۔ معروف ناول نگار ، قراۃ العین حیدرکی تخلیق آگ کا دریا (1957) نے ایسے کئی تنازعات کو جنم دیا جو آج بھی ختم نہیں ہوئے۔ اس پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ یہ ورجینیا وولف کے سوانحی ناول اورلینڈو سے متاثر ہوکر لکھا گیا ہے۔
اس ناول کی سوانح عمری تین سو سال پر محیط ہے اور ناول میں مصنفہ نے جو خیالات پیش کئے اس پر انہیں ہراساں بھی کیا جاتا رہا تھا۔ اگرچہ اس کے پہلے دوسو صفحات پڑھنا مشکل ہے لیکن اس ناول میں برصغیر کی 2,500 سالہ تاریخ سموئی گئی ہے اور اگر آپ اسے گرفت میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو گویا تاریخ بھی آپ کو گرفت میں لے لیتی ہے۔
اداس نسلیں: یہ عبداللہ حسین کا وہ ناول ہے جسے انہوں نے راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا۔ اگرچہ قرۃ العین صدیقی نے عبداللہ حسین پر نقل کے الزامات لگائے تھے اور صفحہ نمبر تک کے حوالےدیئے تھے کہ اس میں آگ کا دریا ناول کا اسلوب اور پیراگراف شامل کئے گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اداس نسلیں آزادی کے بعد تحریر کئے جانے والے اہم ترین اردو ناولوں میں سے ایک ہے۔ اس میں دہلی اور پنجاب کے درمیان ایک گاؤں کا منظر پیش کیا گیا ہے جس میں میں ہندو، مسلم اور سکھ بستے ہیں۔
آنگن: 1962 میں تصنیف کئے جانے والے اس ناول کو ایک شاہکار قرار دیا جاسکتا ہے۔ دیگر فکشن کی طرح اسے تاریخ کی طرح نہیں پڑھا گیا ۔ یہی اسٹائل خدیجہ کی مقبولیت اور عظمت کی وجہ بنا ہے۔
خدا کی بستی: اردو کے مقبول ترین ناولوں میں سے ایک خدا کی بستی کو شوکت صدیقی نے تحریر کیا ہے اور اب تک اس کے 50 ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اور 20 زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا ہے۔
خدا کی بستی میں پچاس کے عشرے کا کراچی دکھایا گیا اور اس میں کچی بستی کی منظر کشی کی گئی ہے۔ خدا کی بستی ایک ایسے معاشرے کی کہانی ہے جو معاشی اور سیاسی نشیب و فراز کے باوجود بقا کی جدوجہد میں مصرف ہے۔
اس کی حقیقی زبان اور عامیانہ انداز سے ہر کردار اور منظر حقیقی نظر آتا ہے۔
بستی: انتظار حسین کے بعد ہی ان کا یہ ناول قدرے متنازعہ ہوگیا تھا۔ انتظار حسین پر اکثر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ بہت ناسٹلجک ہوجاتے ہیں اور یادوں میں گم ہوجاتے ہیں لیکن انتظار حسین کا فن بھی یہی سے شروع ہوتا ہے۔ وہ مایتھولوجی میں حوالہ جات کے ساتھ کہانی کو زبان کی چاشنی سے ایک خوبصورت رنگ عطا کرتے ہیں۔
چاکیواڑہ میں وصال: محمد خالد اختر ایک ممتاز مزاح نگار تھے اور ان کے اس ناول کو فیض احمد فیض نے بھی نامزد کیا ہے۔ اس میں بیان کردہ ہر شے میں طنز و ظرافت کا رنگ موجود ہے۔ لیاری کے علاقے چاکیواڑہ کے پس منظر میں لکھی گئی اس تخلیق میں چاکیواڑہ کے کردار زندہ ہوجاتےہیں۔
** راجہ گدھ:** 1980 کے عشرے میں لکھے گئے اس ناول میں بانوقدسہ نے ایک سماجیاتی نظریہ پیش کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہےکہ کرپشن کی ہر شکل کسی نہ کسی ذہنی عارضےکو پیدا کرتی ہے۔ ہمارا معاشرہ بد عنوانی میں گھرا ہے اور اس میں مصنف نےبتایا ہےکہ کسطرح کرپٹ کردار تکلیف اٹھاتے ہیں۔
کئی چاند تھے سرِ آسمان: اگر ناولوں کی اس فہرست میں کوئی دوسرا ہم عصر ہوسکتا ہے تو وہ شمس الرحمان فاروقی کا ناول ' کئ چاند تھے سرِ آسماں ' ہوسکتا ہے۔ اس میں برصغیر کا کلچر اور کردار دکھائے گئے ہیں۔ ناول میں غالب کا سراپا پڑھنے کے قابل ہے۔