چکلالہ کے جنگل سے چلیں تو ۔ ۔ ۔ جنگل کا ذکر کچھ یوں کہ آج سے ستر اسی برس ادھر یہ علاقہ جنگل ہوا کرتا تھا۔ آس پاس کے محنت کش، یہاں سے لکڑیاں کاٹتے اور شہر میں جا کر بیچ آتے۔ ان لکڑیوں سے مری بریوری کی بھٹیاں، پنڈی کلب کے آتشدان، سردار سورجن سنگھ کے محل کا طباق، بوہڑ بازار کے امبردھارن مندر کے ہون اور نالہ لئی کے شمشان گھاٹ کے مردے جلانے کا کام لیا جاتا تھا۔
اگلا اسٹیشن مانکیالہ کا ہے۔ لکڑی کا پھاٹک اور اس پر لگا تختہ خلاف ورزی کرنے والوں کو پولیس کے حوالے کر دے گا۔ سارے میں ایک بوسیدگی کا عالم ہے۔ ایک صدی بوڑھا یہ ریلوے اسٹیشن پاک سرزمین کی طرح اچھے دنوں کا منتظر ہے۔سامنے ایک معصوم ٹائم ٹیبل ہے ، جس پر اپ اور ڈاؤن کے خانے تو بنے ہیں لیکن ٹرین نہ ہونے کی وجہ سے لگتا ہے جیسے یہاں کبھی کسی نے کچھ لکھا ہی نہیں۔
ایک طرف راج کے مخصوص دہلیز سے باہر بند ہونے والے دروازے ہیں۔ خالی ٹکٹ گھر کی کھڑکی باقی ہے، مسافر خانہ مسمار ہو چکا ہے اور اس کی اینٹیں مانکیالہ کے متعدد مکانوں میں مکینوں سے سرکار کا چھت دینے کا وعدہ پورا کر رہی ہیں۔ کوئی وقت تھا کہ پنڈی جانے والے طالبعلم، اراضی کی خرید و فروخت والے زمیندار، فصل کے آڑھتی او ر سرکار ی بابو، مانکیالہ سے پنڈی کا سفر ٹرین سے کرتے تھے مگر اب چونکہ ٹرین صرف پارکوں اور فلموں میں دکھائی دیتی ہے، لہذا وہ بات بھی فسانہ ہوئی۔
مانکیالہ کی اصل وجہء شہرت ایک اسٹوپا ہے، جس کی نسبت سے اسے مانکیالہ توپ بھی کہا جاتا ہے۔اسٹوپے کے خاکستری وجود کو سبزے کی مہین چادر نے ڈھانپ رکھا ہے۔ مقامی لوک کہانیوں کے مطابق راجہ رسالو نے ایک آدم خور جن کو اس بہت بڑے پیالے میں الٹا قید کر رکھا ہے مگر حقیقت میں کنشک دور کی یہ بدھ عبادت گاہ ۱ٹھارہ سو سال پرانی ہے۔
بدھستوا کے مخصوص کنول ، بنیاد کی دیواروں پہ منقش ہیں ۔ اوپر جانے کے لئے سیڑھیاں بنی ہیں جو آدھے راستے میں ختم ہو جاتی ہیں۔ اسٹوپا کے اوپر پہنچیں تو درمیان میں ایک بہت بڑا کنواں ہے جو درحقیقت نیچے اترنے کا زینہ ہے۔ یہ سیڑھیاں بتدریج تنگ ہوتی جاتی ہیں جس کے سبب نیچے گھور اندھیرا دکھائی دیتا ہے۔ ایک اور کہانی اس کنوئیں کا رشتہ کسی پوشیدہ سرنگ کے زریعہ سارنگ خان کے محل سے بھی جوڑتی ہے۔
الفنسٹن(جن کے نام سے کراچی کی مشہور الفنسٹن سٹریٹ(اسلامی نا م ز یب النساء سٹریٹ ) موسوم تھی) نے کابل جاتے ہوئے رستے میں یہ اسٹوپا دیکھا تو اس کی بابت اپنی کتاب میں تفصیل سے لکھا۔ رنجیت سنگھ کی مشہور فوج خاص کے سپہ سالار جنرل ونچورا کو کھدائی کے دوران یہاں سے زون دیوتا کی انگوٹھیاں، کشن دور کے سکے اور اموی دور کی اشرفیاں نکلیں ۔
سنا ہے جنرل ونچورا کے اپنے محل( موجودہ سول سیکریٹیریٹ) میں آج کل بھی آدم خور بستے ہیں اور سکے ، اشرفیاں نکلتے ہیں۔ 1891 میں گورا فوج کی ایک پلٹن نے اس اسٹوپے کو مقامی ماہر تعمیرات کے ساتھ مل کر عین مین اسی طرح بحال کیا جس طرح پورے سو سال بعد پاک فوج نے بہاولپور کے نور محل کی آرائش نو کی تھی۔
کلرسیداں کے دوسری طرف سگریلا گاؤں ہے، جہاں کے بچے پہلے دریا پار کر کے کشمیر جاتے ہیں اور پھر پاکستان داخل ہو کر علم کی پیاس بجھاتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت سے صرف پینتیس میل کے فاصلے پر پاکستان کا مستقبل پاکستان کا منتظر ہے۔
ریلوے اسٹیشن سے تھوڑی دور موہڑہ بھٹاں کا گاؤں ہے ۔ آزادی سے پہلے یہاں ایک بہت بڑا اسکول اور ایک پرانا مندر ہوا کرتا تھا۔ گاؤں میں چھ پکے تالاب بھی تھے جن میں سے ایک آدھ کا نشان باقی ہے۔ تالاب کے کنارے کئی سو سال پرانے برگد کے درخت ہوا کرتے تھے۔ تال تو سوکھ گئے اور درختوں کی چھاؤں سے کوئی فائدہ نہیں لہذا ایک ایک کر کے یہ تالاب اب عالیشان رہائش گاہوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔
مندر کے بالکل ساتھ اہل ایمان نے ایک مسجد تعمیر کی ہے ۔ اس مسجد کے لئے سرمایہ اللہ کے فضل کی جستجو میں انگلستان ہجرت کر جانے والے پاکستانیوں نے فراہم کیا ہے۔
کچھ برس ہوئے ، گئے دنوں کا سراغ لے کر انگلستان سے ایک ڈاکٹر مانکیالہ آئے۔ ادھر ادھر سے پوچھنے کے بعد پہلے پرانے محلے گئے، پھر موہڑہ بھٹاں کے تالاب دیکھے، سکول میں آنسو بہائے ، مندر میں ماتھا ٹیکا او ر چلے گئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ ان کے دادا بالک سنگھ ، موہڑہ بھٹاں کے سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ بالک سنگھ گیان بانٹتے بانٹتے یہاں سے چلے گئے اور ڈاکٹر صاحب اپنا بچپن ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے یہاں آئے تھے۔
کئی شہر تھے جو اجڑ گئے، کئی لوگ تھے جو بچھڑ گئے
ابھی حادثہ کوئی او ر ہے۔