این سی اے میں مصدق سانول کی بازگشت
لاہور: ڈان ڈاٹ کام کے ایڈیٹر مصدق سانول کے انتقال سے ان کے خاندان کے افراد، دوست اور ساتھی ہی صدمے سے دوچار نہیں ہوئے، بلکہ ایسے لوگ جو ان کے بارے میں اب تک کچھ نہیں جان سکے تھے، ان کی شخصیت اور ان کے فن کے بارے میں جان کر حیران رہ گئے۔ انہیں افسوس ہوا کہ وہ ایسی متنوع شخصیت کے بارے میں ان کی زندگی میں نہیں جان پائے تھے۔
مصدق سانول اس کے علاوہ ایک گلوکار، موسیقار، مصور، شاعر اور اداکار بھی تھے۔ ان کے دوست اور ساتھی اتوار کو نیشنل کالج آف آرٹ جو مصدق سانول کی مادرِ علمی بھی تھی، پر ان کی یاد میں منعقدہ ایک ریفرنس میں شرکت کے لیے اکھٹا ہوئے۔
مصدق سانول کی گائی گئی کافیاں اور گیت کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری بھی اس پروگرام کا حصہ تھی، جس کی میزبانی کاشف بلوچ نے کی۔
این سی اے کے پرنسپل مرتضٰی جعفری جو مصدق سانول کے بیچ کے ساتھی بھی تھے، اس اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مصدق سانول ایک غیرمعمولی صلاحیتوں کے مالک تھے، اور انہوں نے اپنی تعلیم کے دوران ڈگری حاصل کرنے یا کسی قسم کا امتیاز حاصل کرنے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا۔
مرتضٰی جعفری نے کہا کہ جب ضیاءالحق کے عہد کے دوران موسیقی پر تقریباً پابندی لگی ہوئی تھی، تو ان کی بھرپور توجہ موسیقی پر مرکوز رہی۔ مصدق سانول نے کبھی کسی شیڈول کی پیروی نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی ڈگری ادھوری چھوڑ دیاور کبھی اپنا مقالہ جمع کرانے کالج نہیں آئے۔
این سی اے کے پرنسپل نے کہا کہ سانول ایک بہادر انسان تھے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ جب 1980 کی دہائی کے وسط میں این سی اے کے طالبعلم پنجاب یونیورسٹی سے اس ادارے کو منسلک کرنے کے اقدام کے خلاف مزاحمت کررہے تھے، مصدق سانول کو اس دوران اسلامی جمیعت طلبہ کے متشدد کارکنوں کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ دوسرے وہا ں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے، لیکن اس تشدد کے نتیجے میں مصدق سانول کی ایک آنکھ ضایع ہوگئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ مصدق سانول اپنے وقت سے بہت آگے تھے اور وہ جو کچھ اپنے کالج کے دنوں میں کہا کرتے تھے ان کے ساتھی طالبعلم اس کو نہیں سمجھ سکے، اس لیے کہ ان کے ہم عمر گروپ میں اس طرح کے خیالات کسی کے پاس نہیں تھے۔
مرتضٰی جعفری نے کہا کہ حال ہی میں این سی اے کو پنجاب یونیورسٹی کے حوالے کرنے کا ایک اقدام سامنے آیا تھا، اگر مصدق سانول زندہ ہوتے تو وہ ان سے کہتے کہ اس کو روکنے کے لیے کچھ نہ کچھ کریں، وہ ضرور اس کا مقابلہ کرتے۔
بی بی سی اردو کے وسعت اللہ خان نے کراچی سے اسکائپ کے ذریعے بات کرتے ہوئے کہا کہ سانول اپنے مختلف کرداروں کی وجہ سے ایک پہیلی تھے، اور بحیثیت ایک فقیر کے وہ کوئی بھی کردار ادا کرسکتے تھے۔
انہوں نے بی بی سی اردو میں مصدق سانول کے ساتھ اپنی روزانہ کی ملاقاتوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی روح کے ساتھ رابطے میں تھے اور جنوبی پنجاب جہاں سے وہ تعلق رکھتے تھے، کے لیے ان کی گہری محبت ان کے کاموں خاص طور پر ان کی شاعری سے جھلکتی تھی۔
آسٹریلیا سے بات کرتے ہوئے ندیم ملک نے بھی مصدق سانول کی این سی اے کے لیے خدمات کو دوہرایا، جب 1980 کی دہائی کے وسط میں طلبہ یونینوں پر پابندی عائد کردی گئی تھی، اور اس دور میں انہوں نے کس طرح بہادری کے ساتھ اسلامی جمیعت طلبہ کا مقابلہ کیا تھا۔
ندیم ملک نے کہا کہ وہ سانول کے لیے طبلہ بجایا کرتے تھے اور گزشتہ سال لاہور میں اپنے آخری وزٹ کے دوران ان کے ساتھ ملاقاتوں میں ان کے پاس طبلہ نہیں تھا اور سانول نے ان سے کہا کہ جب وہ گانا شروع کریں تو میز کو بطور طبلہ استعمال کرلیں۔
این سی اے کی سابقہ پرنسپل سلیمہ ہاشمی، جنہوں نے مصدق سانول کو پڑھایا تھا، انہوں نے اس وقت کا واقعہ سنایا جب وہ دیگر طالبعلموں کے ہمراہ ہندوستان کے ٹوور پر گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اٹاری کے ریلوے اسٹیشن پر کچھ سخت مزاج بھارتی حکام نے مسلسل ان پر نظر رکھنی شروع کردی اور سانول نے ہارمونیم نکالا، جسے انہوں نے ہندوستان سے ہی خریدا تھا اور انہوں نے گیت گانے شروع کردیے۔ اور وہاں موجود ہر ایک مخالف اہلکاروں کا مذاق بنانا شروع کردیا۔
سلیمہ ہاشمی نے کہا کہ این سی اے چھوڑنے سے پہلے سانول ان سے ملنے آئے اور ان کو اپنی لازمی ذمہ داریوں کے بارے میں بتایا جن کی وجہ سے وہ کالج چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
کارٹونسٹ صابر نذر، این سی اے کے سابق پرنسپل نازش عطاءاللہ، حسن مجتبٰی، پنجابی زبان کے شاعر افضل ساحر اور گلوکار وہ پنجاب یونیورسٹی کے استاد محمد جواد نے بھی خطاب کیا، جبکہ تجربہ کار صحافی حسین نقی بھی اس محفل میں موجود تھے۔
مصدق سانول کی کافی ’جت ول مینڈان متر پیارا‘ جسے فرجاد نبی نے ڈائریکٹ کیا تھا، کی وڈیو اسکرین پر دکھائی گئی جبکہ ان کی نظم ’کوئی غم نہیں‘ جسے انہوں نے کینسر کی تشخیص کے بعد تحریر کیا تھا، کی وڈیو بھی پیش کی گئی۔