ماسٹر اسٹروک
طالبان نے اپنی مذاکراتی کمیٹی سامنے لا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ آصف علی زرداری، میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن سمیت اس ملک کے تمام سیاست دان پانی بھرتے ہیں.
حکومت سمجھ رہی تھی کہ معاملات ابھی تک ویسے ہی ہوں گے جیسے حکیم اللہ محسود جیسے اجڈ کے زمانے میں تھے مگر ملا فضل الله عرف ملا ریڈیو نے پاکستان کی عوام اور قیادت، جو سمجھ رہی تھی کہ پاکستان میں امن لانے کے لئے مزاکرات کارگر ثابت ہوں گے ان کو دن میں تارے ہی تو دکھا دیے ہیں.
طالبان کی جانب سے جن افراد کو اپنی جانب سے مزاکرات کے لئے نمائندگی دی گئی ہے اور تھی بشمول حکومت کے انھیں بھی سمجھنا چاہیے کہ اصل پیغام یہ ہے کہ 'آپ مزاکرات مزاکرات کھیلئے ، ہم ذرا جنگ کی تیاری کر لیں'
اگرچہ مولانا فضل الرحمن اور جناب عمران خان نے تو اس نامزدگی کے شرف سے معذرت کر لی ہے لیکن ان دونوں افراد کے معامله میں 'منی' نے جتنا بدنام ہونا تھا وہ اپنی 'ڈارلنگ' کے لئے ہو چکی ہے.
دونوں چاہے کا جو بھی موقف ہو لیکن یہ پاکستان کے آئین، جمہوریت اور ریاست پر یقین رکھتے ہیں اور ماشاالله مولانا تو پچھلے کئی ادوار سے حکومتی ہنڈولے کے مستقل رکن بھی رہے ہیں چاہے اقتدار میں ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی.
عمران خان بھی چونکہ پاکستان کے مرکزی دھارے کے ایک بڑے سیاستدان ہیں جنکا ایک بہت بڑا ووٹ بنک بھی ہے اس لئے انھیں اس نامزدگی کے بعد اپنی سیاست کے رخ پر بھی غور کرنا چاہئے اور یہ سوچنا چاہئے کہ کیوں طالبان جیسے وحشی جو لوگوں کے گلے کاٹنے اور مسجدوں، امام بارگاہوں اور بازاروں میں معصوم جانوں کے خون کی ہولی کھیلنے کو اسلام کے ساتھ نتھی کیۓ ہوۓ ہیں وہ کیوں انہیں اپنے نمائندے کے طور پر دیکھ رہے تھے.
مولانا فضل الرحمن نے تو اپنے نمائندہ کا طالبان کمیٹی سے لا تعلقی کا اعلان کرتے ہوۓ کہہ دیا ہے کہ 'میں امن مذاکرات کیلئے دعاگو ہوں لیکن پراُمید نہیں کہ مذاکرات کامیاب ہوں گے'.
گھاگ سیاست دان ہیں لہٰذا پہلے ہی سے سارے عمل کا رخ بھانپ لیا ہے اسی لئے اپنے آپ کو اور اپنی پارٹی کو اس سے دور کر لیا ہے. مولانا کو چاہئے کہ جس وقت یہ مزاکرات اپنے 'منطقی' انجام تک پہنچ جائیں تو پاکستان کی عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر جو بھی اقدام کیا جائے اس کی بھرپور حمایت کریں.
دوسری طرف ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد الله شاہد کا کہنا ہے کہ عمران خان اور مفتی کفایت اللہ کی جگہ کالم نگار اوریا مقبول جان اور سینیئر صحافی انصار عباسی کے ناموں پر غور کیا جارہا ہے۔
لیجئے ان دونوں حضرات کی محنت بھی رنگ لے آئی جو حکیم الله محسود کے مارے جانے کے بعد طالبان کی امارت ہاتھ سے جانے پر کف افسوس مل رہے تھے اب شائد ان دونوں حضرات کی لاٹری بھی کھل جائے.
دیکھا جائے تو طالبان کی جانب سے جس ابتدائی پانچ رکنی کمیٹی کا اعلان کیا گیا تھا اس میں اکثریت سیاسی جماعت کے لوگوں کی تھی اس ایک عمل سے طالبان نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا تھا اور مزاکرات کے بارے میں اپنی سنجیدگی اور اس کا رخ بھی متعین کر دیا تھا. ابھی تو باقاعدہ طور پر مطالبات بھی سامنے نہیں لائے گئے، پکچر ابھی باقی ہے دوست!!
دوسری جانب حکومت نے بھی اپنی جو کمیٹی بنائی ہے اس میں مزاکرات کے لئے کسی ٹائم فریم کا اعلان نہیں کیا ہے شائد حکومت بھی کوئی اور ہی فیصلہ کیۓ بیٹھی ہے جو کہ میاں صاحب کی اسمبلی میں تقریر سے واضح ہے جس میں تقریر کے بلکل آخر میں سٹپنی کے طور پر شامل کیۓ گئے پیراگراف میں ہی مزاکرات کی طرف U ٹرن لیا گیا.
ایک لحاظ سے میں حکومت اور طالبان دونوں کے اس مزاکرات ڈھونگ کو پاکستان کے لئے خیر سمجھتا ہوں کیوں کہ وزیراعظم نے کمیٹی بنا کر مزاکرات مزاکرات کا ڈھنڈورہ پیٹنے والے لوگوں کا منہ بھی بند کر دیا ہے اور طالبان نے کمیٹی نامزد کر کہ اس تمام عمل میں اپنی سنجیدگی واضح کر دی ہے جس سے پاکستان میں قوم ان کے خلاف فیصلہ کن عمل کے موقف پر جمع ہو جائے گی اور کوئی بھی امید باقی نہیں رہے گی رہے منور حسن صاحب جیسے لوگ تو وہ اب دوا کی حد سے نکل کر دعا کی طرف جا چکے ہیں.طالبان کا ایجنڈا صرف فاٹا تک محدود نہیں ہے اور نہ رہے گا، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک عالمی دہشت گرد تنظیم (القاعدہ) کی کوکھ میں پلنے والی ایک تنظیم کا ایجنڈا علاقائی ہی رہ جائے.
آپریشن تو ہو ہی جائے گا اور پاکستان کی قوم اس عذاب سے چھٹکارا بھی حاصل کر لے گی لیکن جس طرح طالبان نے پاکستان کے سیاست دانوں اور مختلف طبقات کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا ہے وہ ہمارے معاشرے میں موجود بنیادی تضادات اور فکری بدحالی کی غمازی کرتا ہے. یہ پھل اس پودے کا ہے جس کا بیج ریاست کے ہی اداروں اور اشرفیہ نے پاکستان قائم ہونے کے کچھ عرصے بعد ہی بو دیا تھا.
علی منیر میڈیا سے منسلک ہیں اور سیاسیات اور سماجیات کے موضوعات پر بلاگنگ کرتے ہیں.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔