نقطہ نظر

نئی ٹی ٹی پی

یہ پرانے معاہدوں والے طالبان نہیں، مُلا ریڈیو ریاست پر قبضے کی چال چل رہا ہے۔

سن دو ہزار چار میں طالبان کے پاکستانی ورژن کے ساتھ کیے گئے پہلے امن معاہدے کا طویل، بل کھاتا راستہ شکئی اور جنوبی وزیرستان تک تھا جو سروغہ، میرم شاہ، خیبر اور رسوائے زمانہ سوات سے گذرتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ راستے میں رکنے کے کچھ اور مقام بھی تھے۔

حالیہ دنوں میں مذاکرات کے ادوار اور ان کی ناکامی کی وجوہات پر توجہ رہی ہے لیکن اس میں کسی حد تک، ایک اہم پہلو کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ سن دو ہزار چودہ کی ٹی ٹی پی، سن دو ہزار چار میں محسود جنگجوؤں کی غالب اکثریت پر مشتمل، نیک محمد کی زیرِ قیادت گروہ جیسی نہیں۔

دراصل امکان یہی ہے کہ نیک محمد آج بھی ٹی ٹی پی کو تسلیم نہیں کرتے لیکن جس پیمانے پر ان کی سرگرمیاں اور مقاصد موجود ہیں، ان کی ضرور تعریف کریں گے۔

جب ٹی ٹی پی کے خطرے سے نمٹنے کا معاملہ ہو تو اکثر و بیشتر مسائل کو ایک دوسرے میں ملادیا جاتا ہے اور کبھی کبھار انہیں ایک دوسرے کے ساتھ باہم گڈ مڈ بھی کردیتے ہیں۔ جیسا کہ یہ آج ہے، حقیقی معنوں میں ٹی پی کا خطرہ اتنا وسیع کبھی نہیں رہا تھا کہ وہ ایک ریاست کا تختہ پلٹ سکے۔

نہ ہی وہ اس قابل تھی کہ ریاست کو مذاکرات میں الجھا کر اپنے لیے اتنا وقت اور گنجائش حاصل کرے کہ خود کو طاقتور بنا کر کسی بھی وقت، جلد ریاستِ پاکستان کا دھڑن تختہ کرسکے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان کی داخلی سلامتی کو لاحق یہ سب سے بڑا واحد خطرہ نہیں، جیسا کہ یہ ملک ہمیشہ سے جانتا ہے، اور اس خطرے سے نمٹنے میں ناکامی کے تباہ کُن اثرات اس ملک اور اس کے مستقبل پر نہیں پڑیں گے۔

ٹی ٹی پی سےلاحق خطرات دُہری نوعیت کے ہیں: اول تویہ کہ اس کے عزائم و مقاصد اچھی طرح واضح ہوتے جارہے ہیں؛ اور دوئم، ان مقاصد کے حصول کے لیے بڑھتی لچک اور افہام و تفہیم۔ ٹی ٹی پی کی موجودہ قیادت میں، خاص طور پر اس جڑواں حقیقت کی عکاسی ہوتی ہے۔

شاید ٹی ٹی پی کی سابقہ قیادتوں کے برعکس، مُلا فضل اللہ واضح طور پر جانتے ہیں کہ وہ کیا کچھ حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ یہ مقصد ہے ریاستِ پاکستان پر قبضے سے آغاز۔ ذرا سمجھیے کے مرکزی دھارے میں شامل پاکستان کو نشان زدہ کرکے، عوام اور اس کی قیادت سے کس طرح کی جوڑ توڑ کی جارہی ہے۔

المعروف مُلا ریڈیو مجرمانہ منصوبہ سازی کا سرغنہ ہے، وہ صرف یہی نہیں جانتا کہ کیا چاہتا ہے بلکہ وہ اس پر سوچ و بچار میں بھی وقت صرف کرتا ہے کہ کس طرح اپنے مقصد حاصل کرسکتا ہے۔ اسے اپنی غلطیوں سے سیکھے گئے سبق کا فائدہ بھی حاصل ہے: وہ سوات پر قابض ہوا لیکن صرف واحد وجہ کیا تھی کہ اس کا قبضہ اتنی جلد ختم کردیا گیا۔

یقینی طور پر کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں اب تک کے تمام عسکریت پسندوں میں فضل اللہ سب سے زیادہ بے رحم ایسا جنگجو ہے، جسے تجربات سے سیکھے گئے اسباق اور اس کے اسباب پر ٹھنڈے دماغ سے غور کرنے کا فائدہ حاصل ہے، ایک ایسا دشمن سامنے کھڑا ہے جو اپنی سوچی سمجھی چال سے فوری طور پر ملکی قیادت کے گرد گھیرا ڈال سکتا ہے۔

اب جبکہ حکومت نے ایک بار پھر غیر مشروط ، اور بظاہر نظر یہی آتا ہے کہ بنا کسی سرخ لکیر کو کھینچے، مذاکرات کی پیشکش کی تو ٹی ٹی پی نے ایک بار پھر بے نیازی دکھاتے ہوئے اسے نہ صرف مشروط طور پر قبول کیا بلکہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم پر بھی اعتراضات اٹھا دیے ہیں۔

انگریزی میں پڑھیں

ڈان اخبار