پاکستان

ریپ اور مجرمانہ خاموشی

' وہ ریپ کرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔'

نہ جانے اور کتنی عورتیں کب تک اس مردانہ احساسِ برتری کے معاشرے کے تحت بربریت اور غیر انسانی سلوک کا شکار بنیں گی جہاں خواتین کی اہمیت نہ ہونے کے برابر اور اس کی عزت کی کوئی قدر نہیں ۔

ایک غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2012 پورے پاکستان میں خواتین کی آبروریزی کے 822 کیسز رجسٹر ہوئے جن میں سب سے ذیادہ یعنی 676 واقعات پنجاب میں جبکہ 2013 کے اعداد و شمار ابھی جاری نہیں ہوئے۔

مضمون کے شروع میں اُٹھائے گئے سوالات ریپ کے ہر تازہ واقعے کے ساتھ خبروں، خواتین کے حقوق کی تنظیموں اور لوگوں کی محفل میں اُٹھائے جاتے رہتے ہیں۔

افسوس یہ کہ کچھ دنوں کی بے معنی بحث کے بعد اس مسئلے سے جڑے دکھوں کو سب بھول جاتے ہیں اور یہاں تک کہ ایک نیا واقعہ رونما ہوجاتا ہے۔

پاکستان میں ذیادتی اور اجتماعی ذیادتی کے صرف پانچ فیصد مجرموں کو سزا ہوتی ہے اور ملک میں ریپ کی شکار خواتین کو انصاف فراہم نہ کرنے کی سب سے بڑی ذمے داری قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عائد ہوتی ہے۔

اس سے بد تر یہ کہ جب ریپ کی شکار خاتون انصاف کیلئے مجاز اداروں سے رجوع کرتی ہے تو اس دوران ' دوسرا ریپ' اس وقت ہوجاتا ہے جب وہ اس سے شدید انداز میں ' تفتیش' کرتے ہیں۔

اگر بے رحمی اور بے شرمی کا یہ سانحہ کافی نہ ہو تو اسے کھلی عدالت میں خود پر ہونے والے ظلم کی کہانی کئی بار دوہرانی پڑتی ہے۔

اور پھر اس تمام ذلت اور مشقت کے بعد اگر ہمیشہ نہ سہی تو اکثر یہ ہوتا ہے کہ ملزموں کو ناکافی شواہد کی بنا پر سزا نہیں ہوتی۔

اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے اور اس میں معمولی شبہ رہ جاتا ہے کہ اس کے بعد ہونے والے مزید ریپ کیسوں کی وجہ عدالتی اور قانونی اداروں کی مجرمانہ خاموشی ہی ہوسکتی ہے۔

' ہاں اس سے آبروریزی کے واقعات بڑھتے ہیں،' مختاراں مائی نے کہا جو ملک میں گینگ ریپ کے ایک ہائی پروفائل واقعے کی متاثرہ ہیں اور اب لڑکیوں کے ایک خیراتی اسکول کو چلارہی ہیں۔ ایک مقامی پنجایت پر مائی کو آبروریزی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

' میں نے اپنا کیس دس برس تک لڑا لیکن ان میں سے کسی بھی ملزم کو سزا نہ مل سکی۔ انہوں نے ریپ کیا اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوجائیں گے،' مائی نے کہا ۔

ایڈوکیٹ فیصل صدیقی بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ 'واقعی ایسا ہوتا ہے۔'

فیصل اس یقین کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں،' رپورٹ ہونے والے اکثر واقعات کی شکار لڑکی غریب ہوتی ہے اور اچھا وکیل نہیں کرسکتی، دوسرا یہ کہ ریپ کیسز کے ذمے دار مجرموں کو بری کرنے والے ججوں کا کوئی احتساب نہیں ہوتا۔

ریپ کے خلاف جنگ ( وار اگینسٹ ریپ) نامی تنظیم کی بورڈ ممبر اور عورت فاؤنڈیشن میں اسٹریٹجک پلاننگ مینیجر سارہ زمان فیصل صدیقی کی تائید کرتی ہیں۔

' گرفتاری اور سزا سے بے خوفی، کمزور ثبوت اور کیس کی کمزور پیشکش کی وجہ سے عدالت ریپ کرنے والوں کو رہا کردیتی ہے۔'

سارہ زمان کئی برس سے عصمت دری کی شکار ہونے والی خواتین کی بحالی اور انصاف کیلئے کام کررہی ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ وکیلِ صفائی اس معاملے کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ' ( قانونی) نظام میں خامیاں کہاں کہاں ہیں اور ایک خاتون کو کس طرح منفی انداز میں پیش کیا جاسکتا ہے۔'

پھر دوسری بات یہ ہے کہ ثبوت کیلئے چار گواہوں کی طلبی سے مجرموں کی گرفت کی امید مزید کم ہوجاتی ہے۔

ملک میں پنجایت اور جرگے کے نام سے کینگرو کورٹس ایک متوازی نظامِ انصاف کے طور پر چل رہے ہیں اور وہ جسے چاہیں بے رحمانہ ریپ کی سزا دے سکتے ہیں۔

سندھ ہائی کورٹ نے جرگہ نظام پر پابندی عائد کردی ہے لیکن ریپ کے ذیادہ واقعات پنجاب میں ہورہے ہیں۔

درحقیقت جو کنگرو کورٹس خود ریپ کی سزا دیتے ہیں ان کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔

ثبوت کا مجموعہ

ایک کہنہ مشق وکیل فیصل صدیقی جانتے ہیں کہ کٹہرے میں خاتون کی گواہی کوئی حرکت پیدا نہیں کرسکتی بلکہ سزا دینے کیلئے درکار مزید ثبوت کی فراہمی خواہ وہ فورینسک ہی کیوں نہ ہو اس کیلئے ممکن نہیں ہوتی۔' انہوں نے کہا۔

رپورٹ ہونے والے کیسوں سے ثابت ہوا کہ جتنے بھی ملزمان چھوڑے جاتے ہیں انہیں ' ناکافی ثبوت' یا ان کیخلاف ' چار گواہ پیش نہ کرنے پر' ہی رہا کیا جاتا ہے۔

اس کی ایک اہم ترین مثال کراچی میں مزارِ قائد پر ہونے والے گینگ ریپ کی ہے جس میں فیصلہ کن فورینسک شواہد موجود تھے لیکن چار گواہوں کی عدم موجودگی سے مجرم اب بھی آزاد ہیں۔

اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ ریپ کی شکار ہونے والی خواتین فوری طور پر رپورٹ نہیں کرتیں۔

یہ تاخیر، خواہ چند دنوں کی ہو، پہلے مرحلے میں ملزمان کے خلاف کیس کو کمزور کردیتی ہے۔ اگر اسی دن کیس رپورٹ بھی ہوجائے تو ملزمان بڑی آسانی سے خود کو دھو کروہ ثبوت آسانی سے مٹادیتے ہیں جو ریپ کرنے والوں تک جاتے ہیں۔

پولیس سرجن جلیل قادر کہتے ہیں، ' جتنا جلد ممکن ہو، واقعاتی ( فورینسک) ثبوت جمع کئے جائیں، لیکن اکثر معاملات میں خاتون کو اغوا کیا جاتا ہے، اسے جنسی عمل کا نشانہ بنایا جاتا ہے اسے یا تو چند دنوں بعد خود چھوڑدیا جاتا ہے یا پھر ادارے اسے بازیاب کراتے ہیں لیکن اس میں بھی دن صرف ہوتے ہیں۔ '

ذیادتی کی شکار خاتون کو چاہئے کہ اگر یہ سانحہ ہوجائے تو وہ خود کو دھوئے بنا جتنا جلد ہوسکے تمام ثبوتوں کیساتھ حاضر ہوجائے جن میں کنڈوم، بیڈ شیٹ اور کپڑے وغیرہ شامل ہیں اور انہیں کسی طرح بھی چھیڑا نہیں جانا چاہئے۔

اس کے بعد ان چیزوں کوتجزیئے کیلئے فوراً مجاز عدالتوں کو بھیجنا چاہئے لیکن اس میں بھی ایک رکاوٹ ہے۔

' ایک پولیس افسر کو تمام چیزیں ملنے کے بعد اسے لیب میں بھیجنے کیلئے بھی اعلیٰ اداروں سے اجازت کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور اس تاخیر سے ان چیزوں کی افادیت پر بہت اثر پڑتا ہے۔' انہوں نے کہا۔

اب قانون اور مجاز اداروں کو اس کا جواب دینا ہے کہ انصاف کی بہت معمولی شرح پر ریپ کی بلند آواز میں مذمت سے کیا وہ براہِ راست اس بھیانک جرم کی حوصلہ افزائی نہیں کررہے ؟

اسلام آباد سے حسنین غیور کی اضافی رپورٹنگ کے ساتھ۔