نقطہ نظر

مسائل کی ترجیحات

جب تک ہم تحفظی ڈھانچوں کے بغیر بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہوتے، ترقی ناممکن ہے-

کچھ عرصے سے، ترقی اور سرمایہ کاری کے اشاریے مستقل طور پر توازن کی نچلی سطح پر آکر رک گئے ہیں- 1980 کی دہائیوں میں اور اکیسویں صدی کے پہلے چھ سے سات برسوں کے دوران ترقی کی شرح 5٫5 فی صد تھی جو اب اوسطاً صرف تین فی صد کی شرح سے رینگ رہی ہے-

ہمارے لئے ملکی منڈی (ڈومسٹک مارکٹ)، معاشی ترقی کی رفتار، پیٹرن اور سطح کا بنیادی عنصر رہی ہے کیونکہ ہماری توجہ کا مرکز ایک ایسے معاشی ڈھانچہ کی تشکیل تھی جو صنعتوں کا تحفظ کرسکے اور ہمیں یہی امید تھی کہ یہ محفوظ شعبہ بالاخر دوسروں سے مقابلہ کرسکے گا اور عالمی منڈی میں اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے گا-

اس میں ناکامی کا نتیجہ یہ ہوا کہ برآمدات کے ڈھانچہ نے جو ترقی کی اس کا بھاری انحصار صرف ایک فصل پر تھا --کپاس-- جس کا ہمیں نسبتا ایک 'جامد' (نہ کہ حرکیاتی) فائدہ حاصل تھا، چنانچہ ہم نے برآمدات کی نشوونما کرنے اور فروغ دینے پر توجہ نہیں دی جس سے جدید خیالات اور صلاحیتیں رکھنے والے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ہوتی جو خطرہ مول لینے کے لئے تیار ہوتے-

لیکن، صرف یک-فصلی معیشت کو معاشی سرگرمیوں کی سطح میں اضافہ کرنے کے لئے استعمال کرنے کے لئے ضروری ہے کہ برآمدات میں انتہائی تیز رفتاری سے اضافہ ہو (جیسا کہ جی ایس پلس کا درجہ حاصل کرنے کے بعد امید کی جارہی ہے-)

باوجودیکہ، ہمارے پاس وہ مہارت موجود نہیں ہے جو تیار (ویلیو ایڈڈ) مال کی برآمدات میں اضافہ کے لئے ضروری ہے تاکہ نہ صرف تجارتی خسارہ کم ہو بلکہ آنے والے دنوں میں غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی میں بھی مددگار ثابت ہو-

تاہم، تجارتی خسارہ میں اضافے اور قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داریوں کے مقابلے میں ہماری برآمدات کی رفتار مناسب رہی ہے- اگر برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی کے ذریعے غیر ملکی ادائیگیوں کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا ہے، تو دوسری طرف، اس میں بڑھتی ہوئی شرح سے کمی بھی نہیں ہوئی ہے-

چنانچہ، ایک طرف تو ہم نے اپنی پالیسی کو مسلسل مسخ کرتے ہوئے صنعتی ڈھانچے کو استثناء اور مراعات کی بیساکھیوں پر ترقی دینے کی کوشش کی- دوسری طرف، یہ گھسا پٹا فقرہ کہ ملک اضافی برآمدات کا متحمل نہیں ہو سکتا باربار دہرایا جانے لگا- لیکن کسی نے یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ آیا کوریا، تائیوان، ہانگ کانگ، ملائشیاء اور چین بین الاقوامی منڈیوں میں داخل ہونے سے پہلے اس انتظار میں تھے کہ ان کے پاس اضافی برآمدات ہوں؟ اس سے بھی اہم بات تو یہ ہے کہ اس دلیل کے مطابق کیا سیالکوٹ میں پانچ ملین اضافی فٹ بال موجود تھے جب وہاں کے تاجروں نے فٹ بال برآمد کرنے شروع کئے؟

اگرچہ 1990 کی دہائی کی ابتدا میں چند اصلاحات کی گئیں جس کا مقصد صنعتوں کی لائیسنسنگ اور سرمایہ کاری کے طریق کار کو پابندیوں سے آزاد کرنا تھا لیکن ان اصلاحات میں جو کمی رہ گئی وہ یہ کہ یہ اصلاحات تجارت کو آزاد بنانے سے پہلے کی گئیں- مثلاً، شکر کی صنعت، موٹر وہیکل اسمبلرز، انجینیئرنگ اور فرٹیلائزر کی صنعتوں اور آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کو غیر ضروری مراعات دی گئیں ---آخری دو صنعتوں کے لئے گیس کی قیمتوں میں کمی کی گئی جو آج بھی اپٹما کے رکن پاور پلانٹس کو سبسڈی کے طور پر دی جارہی ہے-

میں سمجھتا ہوں کہ ترجیحات کی یہ پالیسی غلط ہے- اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی صنعت کے ایک بڑے حصے نے بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کرنے کے لئے یا تو ہر قسم کی مراعات مانگیں (جبکہ اپنی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی) یا پھر اپنی توجہ ملکی منڈی پر مرکوز رکھی (اور جب بھی ضرورت پڑی، ریاست نے انھیں تحفظ دینے کے لئے اقدامات کئے یا پھر انھیں امداد فراہم کی جو ایس آر او کلچر کے نام سے مشہور ہے)-

اسمگل ہونے والے سامان اور بیگیج الاونس اسکیم کے تحت تارکین وطن جو سامان اپنے ساتھ لاتے تھے، اس کے باوجود ہماری معیشت اسی سطح پر قائم رہی، کیونکہ بعض صنعتی شعبے جو بین الاقوامی سطح پر مقابلہ نہیں کرسکتے تھے، اگر انھوں نے ترقی نہ بھی کی تو، انھیں کم شفاف خصوصی پالیسیوں اور اقدامات کے ذریعے جو تحفظ فراہم کیا گیا (امتیازی ٹیکس، اعلیٰ درآمدی ڈیوٹی اور سبسیڈیز) اس کے نتیجے میں وہ زندہ رہیں-

وہ 'بچہ' جسے مقابلے سے بچانے کے لئے'تحفظ' دیا گیا تھا اس امید پر کہ وہ 'بڑا ہوگا' ویسا ہی سست رہا، اور اس نے ان سہاروں کے بغیر اتنی طاقت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی کہ عالمی سطح پر مقابلہ کرسکے- یہ طریق کار غیر موثر پیداکنندوں اور بیوروکریسی کے درمیان ایک سہل معاہدہ ثابت ہوا، جس کے تحت اول الذکر کو پارلیمنٹ سے منظور شدہ بجٹ کی تجاویز کے بغیر 'زبردستی مدد' حاصل کرنے کے مواقع فراہم کئے گئے-

نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ملکی صنعت کی ترقی نے دوسری صنعت کے لئے منڈی فراہم کی --چناچہ یہ تمام منڈیاں ساتھ ساتھ ترقی کرتی گئیں اور اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہوگیا کہ کونسی صنعت وقت کے ساتھ پھلے پھولے گی اور کونسی ختم ہوجائیگی-

بند معیشتوں میں اسی قسم کی کمزوریاں ہوتی ہیں- جب تک ہم تحفظی ڈھانچوں کے بغیر بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہونگے نہ تو ترقی ممکن ہے اور نہ ہی اسکی پیش بینی کی جاسکتی ہے-

صنعتوں کے بہت سے ذیلی شعبوں میں حکومت کے بے تحاشا مصارف اور بعد میں آنے والی حکومتوں کی جانب سے بھی پیداواری صلاحیتوں میں بے سوچے سمجھے اضافہ کرنے کی کوشش کی گئی گویا کل کبھی نہیں آئَے گا-

اب سیاسی مصلحتوں کی بناء پر انھیں مقابلے سے بچانا ضروری ہو گیا ہے، خاص طور پر اس زمانے میں جبکہ ترقی کی شرح کم ہو اور ان کے بند ہونے کی صورت میں بیروزگاری پیدا ہوسکتی ہے جو تشویش کا باعث ہے-

نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہر قسم کی صنعت خواہ اسکی کارکردگی اچھی ہو یا غیر اطمینان بخش میدان میں موجود ہے لیکن اس لائق نہیں کہ بین الاقوامی طور پر مقابلہ کرسکے جو ان غلط پالیسیوں کی نمایاں مثال ہے-

آج صنعتی ڈھانچہ جس بحران کا شکار ہے، خاص طور پر ہمارا روایتی ذیلی شعبہ، تجارتی شعبے کو ٹکڑوں میں کھولنے کا نتیجہ ہے- مساوی مواقع فراہم نہ کرنے نیز بعض نجی اور سرکاری ذیلی صنعتوں کو تحفظ دینے کی معیشت کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے کیونکہ اصلاحات کرنے میں ہماری ترجیحات غلط تھیں، ہم نے اپنے محدود وسائل کو غیر موثر پیداواری عمل سے جوڑ دیا تھا-

ان مصارف میں مزید اضافہ اس وجہ سے بھی ہوا کہ کمپوننٹ اور سب کمپوننٹ پر ڈیوٹی کی شرح مختلف تھی جس سے بدعنوانیوں میں اضافہ ہوا اور ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس سے بچنے کے لئے برآمدات کی کم مقدار بتائی گئی- اس قسم کے فیصلوں کا خمیازہ صارفین کو بھگتنا پڑا-


انگلش میں پڑھیں

 ترجمہ: سیدہ صالحہ
شاہد کاردار
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔