دنیا

'پاکستانی ، بنگالی تارکین وطن افسوس کا باعث'

یونانی وزیر نے یورپ کے دوسرے ملکوں کے برعکس اپنے ملک میں غیر قانونی تارکین وطن کے 'معیار' کو افسوسناک قرار دے دیا۔

ایتھنز: یونان میں ایک وزیر نے یورپ کے دوسرے ملکوں کے برعکس اپنے ملک میں غیر قانونی تارکین وطن کے 'معیار' کو مختلف قرار دیتے ہوئے صورتحال پر افسوس ظاہر کیا ہے۔

وزیر برائے عوامی نظم و شہری تحفظ نکوس ڈینڈیس نے کہا کہ دوسرے ملکوں میں اور یہاں آنے والے تارکین وطن کی ثقافت میں فرق کسی سانحہ سے کم نہیں۔

'سوئیڈن میں آنے والے تارکین وطن کا تعلق سابق سویت یونین کے ملکوں سے ہے، جن کا کچھ نا کچھ تعلیمی معیار ہوتا ہے اور وہ بہرحال بڑے تناظر میں یورپی ہی ہیں لیکن دوسری جانب یونان میں آنے والے بنگلہ دیش یا پاکستان سے ہیں، جس کی وجہ سے ہمارے اور دوسرے ملکوں کے درمیان واضح فرق ہے'۔

یونان میں غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف مہم کے سربراہ ڈینڈیس نے سکائی ریڈیو کو بتایا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والوں کی ثقافت مختلف ہے۔۔۔وہ کسی دوسری دنیا سے آئے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔

قدامت پسند جماعت 'نئی جمہوریت' سے تعلق رکھنے والے وزیر نے واضح کیا کہ ان کے بیان کا مقصد کسی کو 'نیچا دکھانا' نہیں۔

ان کی وزارت کی ویب سائیٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال یونان میں گرفتار ہونے والے غیر قانونی تارکین وطن میں سے چھتیس فیصد البانیا، انیس فیصد شام، پندرہ فیصد افغانستان، نو اعشاریہ چار فیصد پاکستان اور تین اعشاریہ پانچ فیصد بنگلہ دیش سے تھے۔

یونان نے سن 2013 کے پہلے گیارہ مہینوں میں 39٫759 غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کیا تھا جبکہ 2012 میں یہ تعداد 76٫878 اور 2010 میں 132٫524 تھی۔

ڈینڈیس کے مطابق ایک کروڑ دس لاکھ آبادی والے ملک میں پچھلے دس سالوں میں پندرہ لاکھ غیر قانونی تارکین وطن داخل ہوئے۔

خیال رہے کہ یونان کو یورپیئن یونین میں آنے کے لیے داخلی دروزے کے طور پر سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اسے غیر قانونی تارکین وطن جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

جولائی تک یورپی یونین کی صدر رہنے والے یونان نے امیگریشن مسائل کو ترجیح دے رکھی ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ وہ ایسے اقدامات کے لیے آواز اٹھائے گا جس کے تحت تارکین وطن کو یورپی یونین کے اٹھائیس رکن ملکوں میں تقسیم کیا جا سکے۔

ڈینڈیس کے مطابق، وہ یوپیئنز کو کہہ چکے ہیں کہ 'ہمیں اس طرح کی ایک سکیم کی ضرورت ہے'۔

انہوں نے بتایا کہ تارکین وطن مختلف ملکوں میں تقسیم کے لیے میزبان ملکوں کے معاشی حجم، رقبہ اور آبادی کو ملحوظ رکھا جائے۔