کراچی: سیکورٹی فورسز پر بم حملے میں چار ہلاکتیں

کراچی: کراچی میں بدھ کو قانون نافذ کرنے والے اداروں پر تین حملوں میں تین رینجرز اہلکار اور ایک نجی سیکورٹی گارڈ سمیت چار افراد ہلاک جبکہ کم سے کم چھ سیکورٹی اہلکار زخمی ہو گئے۔
کراچی کے علاقے ناظم آباد میں رینجرز چوکی کو دھماکے میں نشانہ بنایا گیا جس کے کچھ منٹوں بعد اسی علاقے میں پولیس وین کے قریب دوسرا دھماکا ہوا۔
دھماکوں کے بعد ریسکیو اور ایمرجنسی ٹیمیں موقع پر پہنچیں اور زخمی ہونے والوں کو قریبی عباسی شہید ہسپتال منتقل کردیا جبکہ پولیس اور رینجرز نے تحقیقات شروع کر دیں۔
کچھ دیر کے بعد ناظم آباد میں ہی واقع رینجرز ہیڈکوارٹرز کے قریب تیسرا دھماکا ہوا جو پچھلے دھماکوں کے مقابلے میں زیادہ شدت کا تھا۔
کالعدم تحریک طالبان نے ان بم حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی۔
ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے نامعلوم مقام سے ڈان ۔ کام سے گفتگو میں ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔
ایس ایس پی سینٹرل امیر فاروقی کے مطابق پہلے دو دھماکوں کی نوعیت معلوم نہیں ہو سکی تاہم ممکنہ طور پر یہ نصب شدہ بم تھے۔ انہوں نے کہا کہ تفصیلات واقعے کی مکمل تحقیقات کے بعد معلوم ہو سکیں گی۔
انہوں نے مذید بتایا کہ پہلے حملے میں ایک نجی سیکورٹی گارڈ ہلاک جبکہ چھ رینجرز اہلکار زخمی ہوئے۔
تیسرے دھماکے کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے ایس ایس پی فاروقی نے بتایا کہ جائے وقوعہ سے دھماکے میں استعمال کی گئی ایک موٹر سائیکل کے کچھ پارٹس برآمد ہوئے ہیں۔
جبکہ ایک اور پولیس ذرائع نے متاثرہ مقام سے ایک شخص کے جسم کے کچھ حصے ملنے کی تصدیق کی۔
ڈائریکٹر جنرل رینجرز میجر جنرل رضوان اختر نے رینجر ہیڈکوارٹر پر حملے کے بعد وہاں کا دورہ کرتے ہوئے ڈان ۔ کام کو بتایا کہ اس طرح کے حملے انہیں فرائض کی ادائیگی سے نہیں روک سکتے اور وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے.
انہوں نے مذید کہا کہ 'کراچی کے عوام ہمارے ساتھ ہیں اور دہشت گردوں کو ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے'.
پاکستان رینجرز کے ایک ترجمان نے ڈان ۔ کام کو بتایا کہ ایک مشکوک شخص نے ناظم آباد میں رینجرز ہیڈکوارٹر کے بیرونی گیٹ سے اندر آنے کی کوشش کی جسے دروازے پر تعینات سیکورٹی اہکاروں نے ناکام بنا دیا۔
ترجمان کے مطابق، مبینہ حملہ آور نے مزاحمت کے بعد خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
ترجمان نے مذید بتایا کہ واقعہ میں تین رینجرز اہلکار ہلاک جبکہ چار زخمی ہو گئے۔
دوسری جانب رینجرز اہلکاروں نے شاہ لطیف ٹاؤن میں آج صبح سرچ آپریشن کیا جس میں کم سے کم ایک ہزار کے قریب سندھ رینجرز کے اہلکاروں نے شرکت کی۔
یاد رہے کہ کراچی میں رینجرز اور پولیس کا یہ مشترکہ آپریشن گزشتہ سال پانچ ستمبر کو وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد شروع کیا گیا تھا۔
اس سے پہلے گزشتہ روز بھی سندھ پولیس نے 258 مشتبہ افراد کی گرفتاری کا دعویٰ کیا تھا، جبکہ سندھ رینجرز کا دعویٰ ہے کہ شہر میں جاری آپریشن کے دوران اس نے 40 دیگر مشتبہ افراد کو حراست میں لیا۔
اس آپریشن کو تقریباً پانچ مہینے ہونے کو ہیں لیکن شہر میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ اب بھی ختم نہیں ہوسکا ہے۔
بدھ کو ہونے والے واقعات میں سچل گوٹھ اور لیاقت آباد سپر مارکیٹ میں دو افراد کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا۔
اس کے علاوہ لی مارکٹ، حاجی کیمپ، بلدیہ ٹاؤن، قائم خانی کالونی اور سائٹ کے علاقے میں واقع غنی چورنگی پر فائرنگ سے بینک منیجر سمیت تین افراد ہلاک ہوگئے۔