روہی کی کہانی ۔ 1
ہندوستان کی سرزمین پہ سولہ اپریل 1853 کے دن پہلی بار ریل چلی تھی۔ جس طرح پل بنانے والے نے دریا کے اس پار کا سچ اس پار کے حوالے کیا ، اسی طرح ریل کے انجن نے فاصلوں کو نیا مفہوم عطا کیا۔ اباسین ایکسپریس ، کلکتہ میل اور خیبر میل صرف ریل گاڑیوں کے نام نہیں بلکہ ہجر، فراق اور وصل کے روشن استعارے تھے۔
اب جب باؤ ٹرین جل چکی ہے اور شالیمار ایکسپریس بھی مغلپورہ ورکشاپ کے مرقد میں ہے، میرے ذہن کے لوکوموٹیو شیڈ میں کچھ یادیں بار بار آگے پیچھے شنٹ کر رہی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے ریل میں بیٹھ کر تو کبھی دروازے میں کھڑے ہو کر خود سے کی ہیں۔ وائی فائی اور کلاؤڈ کے اس دور میں، میں امید کرتا ہوں میرے یہ مکالمے آپ کو پسند آئیں گے۔
ریل کی سیٹی سمہ سٹہ سے نکلے تو چولستان کا قصد کرتی ہے۔ سنا ہے، جنوبی پنجاب کے بہت سے خوشگوار حوالوں کی طرح، سرکار نے سمّہ سٹہ کا ریلوے سٹیشن بھی جولائی 2011 میں بند کر دیا۔ اب ریل یہاں سے گزرتی تو ہے پر رکتی نہیں، ہاں روہی کی ان صحرا نورد آوازوں میں گم ہونے سے پہلے ایک کوک ضرور بھرتی ہے جو دور دور تک سنائی دیتی ہے۔
بہاول پور سے ذرا آگے ایک اور آبادی ہے جسے ایک نواب صاحب نے بسایا تھا۔ احمد پور شرقیہ کے قدموں میں موجود یہ قصبہ، ڈیرہ نواب صاحب کہلاتا ہے۔ پنجاب کے آنچل میں ست رنگی باندھنے والے ان عباسیوں نے، جہاں خلق خدا کے لئے دلآویز شہر آباد کئے، وہیں اپنے رہنے کے لئے دل پذیر رہائش گاہیں بھی بنائیں۔
صادق گڑھ کا محل بھی ایسا ہی ایک شاہکار ہے۔ دارالحکومت کی مصروف زندگی سے پرے، اس محل میں مسجد بھی تھی اور سینما بھی۔ حاکم وقت کے رہنے کے علاوہ، یہاں کار سرکار چلانے کا بھی پورا پورا بندوبست تھا۔
محل کے کمرے سو سے بس ایک کم تھے، ہو سکتا ہے، مکمل خوبصورتی سے ایک قدم پیچھے رہنے کا سبق، یہاں کے مکینوں نے نور محل سے سیکھا ہو۔ ایک سو سال پرانے اس محل کی آب و ہوا میں نواب خاندان کے علاوہ، وائسرائے سے وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل سے شاہ ایران تک اپنے وقت کے تقریبا سبھی اہم لوگ، تھوڑا تھوڑا سانس لے چکے ہیں۔
زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ شہر نے تو نئے خد و خال اپنا لئے مگر محل اب بھی وہیں کھڑا ہے۔ جب سینتالیس کی آندھی چلی اور ریاستوں کی روایات وقت اوڑھ کر سونے لگیں تو نواب صاحب کی کثیر العیالی نے سر اٹھا لیا۔ جائیداد کے جھگڑے بڑھتے گئے اور جاگیر سمٹتی گئی۔
آخر کار ایک دن ایسا بھی آیا کہ محل کے مکینوں نے محل ہی چھوڑ دیا۔ جن برجوں سے کبھی عدالتوں کے فیصلے جاری ہوا کرتے تھے وہ اب اپنے فیصلے کے منتظر ہیں۔ محل ایک بہت بڑا کھنڈر بن گیا ہے جس میں بس بیتے دنوں کے قصّے باقی ہیں۔
گرداگرد بنی چاردیواری کب کی پامال ہو چکی۔ فانوسوں کی جگہ، چھت سے گیا وقت، الٹا لٹکا ہے اور فرش پہ بچھی شطرنجیاں پھیکی پڑ چکی ہیں۔ دروازوں کے شیشوں سے ہوا اب بے دھڑک اندر آتی ہے اور خاک اڑا کر بے کواڑ کھڑکیوں سے واپس لوٹ جاتی ہے۔ آندھیوں کے چلنے اور رکنے سے کبھی تو ڈیرہ نواب صاحب پہ پڑی گرد اٹھ جاتی ہے اور کبھی دوبارہ پڑ جاتی ہے ۔ صادق گڑھ کی ویرانی، کسی سوئے ہوئے محل کی کہانی سناتی ہے۔
جیسے ڈیرہ نواب صاحب میں سویا ہوا محل، ایک جاگتے ہوئے شہر کے ساتھ بسا ہے ویسے ہی لیاقت پور، فیروزہ اور خان پور کٹورا سے تھوڑا پرے ایک مقام ایسا بھی آتا ہے جہاں صحرا آبادی کے ساتھ جڑا ہے۔ ایک طرف ریت ہے جو آنکھوں میں دھنستی جاتی ہے اور دوسری طرف سبزہ ہے جو دل میں اترتا جاتا ہے۔ ادھر سرسوں کا کھیت، ریگستان کو جنم دیتا ہے اور ادھر ریت کی آغوش سے ہریاول پھوٹتی ہے۔ دونوں کے درمیان بس پانی کا ایک خاموش سمجھوتہ لکیر کی مانند بہتا ہے۔
ٹھیک اسی مقام سے چولستان اپنی ہزار داستان شروع کرتا ہے۔ کہتے ہیں چولستان کا مآخذ ترکی زبان کا لفظ چول ہے، جس کے معنی ریت کے ہیں۔ ریگ کے اس سمندر میں کہیں کہیں ٹیلوں کے جزیرے بھی نظر آتے ہیں، جنہیں مقامی زبان میں 'ٹبّہ' کہا جاتا ہے۔ مسافر کی منزل کی طرح ان کی ہیئت بھی بدلتی ہے اور جگہ بھی، مگر سرشت وہی رہتی ہے۔
ٹبّوں کے ان سلسلوں میں، اگر کہیں پانی مل جائے تو وہاں زمین پختہ بھی ہو جاتی ہے اور سفید ہونے کے ساتھ ساتھ تھوڑی سی سبز پوشاک بھی پہن لیتی ہے۔ آس پاس اگر عرب شیخوں کے بنائے ہوئے زیر زمین تالاب نہ ہوں تو یہاں پانی کا خشک پڑتا ذخیرہ بھی نظر آتا ہے۔ اس ساری کایا کلپ کے بعد اسے ڈھار کا نام دیا جاتا ہے۔
یہاں رہنے والوں کی زندگی بے حد پراسرار ہے، جس میں داخل ہونے کی واحد شرط صحرا نوردی کی بے باک خواہش ہے۔ ریگ زار کی یہ ریت، ریل کے مسافر کو جتنی خاموشی، دان کرتی ہے، نخلستانوں کے سہارے، زندگی گزارنے والے اپنے باسیوں سے اتنی ہی باتیں کرتی ہے۔ ٹرین کے اے سی کوپے سے اترنے اور ڈھاروں کے طلسم میں داخل ہونے کا سارا سفر، سرشاری، جنون اور وحشت کی واردات ہے۔
سڑک سے آنے والے راستے پہ، جہاں آنکھوں سے انتظار رستا رہتا ہے، وہیں ایک عجیب منظر بھی دکھائی دیتا ہے۔ ان ویرانوں کے مکین، اپنے جانوروں کو انہی راستوں سے صحرا میں داخل کرتے ہیں اور پھر انہیں ایک ہانک لگا دیتے ہیں، جس کے بعد نہ صرف یہ، کسی گلہ بان کے بغیر چرتے جاتے ہیں، بلکہ ایک مقام پہ پہنچ کر واپسی کا راستہ بھی خود ہی لیتے ہیں۔
خدا معلوم کہ دو سے تین ہزار کے ریوڑ میں، یہ جانور کس رسی کو مضبوطی سے تھام لیتے ہیں کہ ان میں سے نہ تو کوئی در بدر ہوتا ہے اور نہ ہی راستہ بھولتا ہے۔ جسم کے کسی حصے پہ مخصوص علامت کی شناخت لئے یہ جاندار، مہینوں صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی پیروی میں ایک ترتیب اور توازن کے ساتھ چرتے رہتے ہیں۔
ان کے مالک عام سے چرواہے ہیں جو بہت پہلے من حیث القوم احساس کمتری اور احساس برتری سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ مویشیوں کو مہریں لگانے والے یہ لوگ عام طور پہ آپس میں علاقے بانٹ لیتے ہیں اور بعد میں اپنے اپنے علاقوں میں کنوؤں کی صورت خدا کا فضل تلاش کرتے ہیں۔
58 خشک ساون دیکھنے والے اشرف کو عشاء کی رکعتوں کا تو ٹھیک سے علم نہیں تھا مگر وہ راستے میں ملنے والے ہر مسافر کو پانی ضرور پوچھتا تھا۔ اس کا دادا تھوڑی سی دھات اور تھوڑی سی عقل کے آسرے پہ میٹھے پانی کا کھوج لگا لیتا تھا، جسے بعد میں چھ لوگ، ایک من چونے کے ساتھ چھ دن میں کنوئیں کی صورت تیار کر لیتے۔
چھ کی اس ٹولی میں ایک آدمی کھدائی کرتا اور دوسرا چونے کا لیپ کرتا، جب کہ باقی کے چار لوگ مٹی دور دور تک پھینکنے اور پھیلانے کے عمل پہ مامور ہوتے۔ ہر دس ہاتھ کے بعد کنواں آدھا ہاتھ چوڑا کرتے کرتے جب یہ پانی تک پہنچتے تو اس کا قطر بہت بدل چکا ہوتا ہے۔ اشرف کو اب ٹھیک سے یاد نہیں تھا کہ چونے کے ساتھ کیا جنم کہانی کی جاتی کہ اس میں سیمنٹ کا سا اثر پیدا ہو تا تھا۔
بارشیں نہ ہوں تو ان ڈھاروں کی زمینیں، پیاسوں کے ہونٹوں کی مانند سوکھ جاتی ہیں۔ ٹیلوں میں مٹی اور جھاڑیوں کے سنگم پہ ویرانی راج کرتی ہے اور صحرا کی وسعت ہر سانس کے ساتھ، اندر تک اتر جاتی ہے۔ کسی عرفات کی طرح یہ میدان بھی ایک ہیبت ناک خاموشی سے بھرا کسی حشر کا منتظر رہتا ہے۔ راستوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑنے والے ڈھانچے اور جا بجا اگی ہوئی جھاڑیاں اس دعا کی طرح بکھری نظر آتی ہیں جو آسمان کی طرف اٹھی تو سہی مگر پھر نا مراد لوٹ آئی۔
شام ہوتی ہے تو کہیں کہیں ساربان ایک ایک دو دو کی ٹولیوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے چھوٹے چھوٹے قافلے ہلکے پھلکے قدموں سے ریت کے سمندر میں ڈوبتے اور ابھرتے نظر آتے ہیں اور سسی اور سہتی کے شراپ کی یاد دلاتے ہیں۔ صحرا کی مقدس خاموشی اور کنواری ہوا کی تقدیس یوں تو ہر حساس دل کو تخلیق پہ آمادہ کرتی ہے مگر سر کے سہارے، شہر میں ریگستان بسانے کا فن صرف ریشماں کا مقدر ہو سکا۔
روہی کی داستان اور ساربان کے سفر میں ابھی بہت سی منزلیں باقی ہیں۔
(جاری ہے)
is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen