نادرا کے ڈیٹا میں ہیرا پھیری کی رپورٹس۔ خطرے کی گھنٹی
اسلام آباد: نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے حساس ڈیٹا میں ہیرا پھیری اور غلط بیانی کے معاملے کا انکشاف جمعہ کے روز خطرے کی گھنٹی کی صورت میں سامنے آیا، وفاقی وزیرِ داخلہ نے نادرا کے حکام کو اس ریکارڈ کی درستگی کے لیے دو ہفتوں کا وقت دیا ہے۔
وزیرداخلہ نے نادر کے آفس میں اپنے پہلے وزٹ کے دوران ایک طویل بریفنگ میں شرکت کرنے کے بعد کہا کہ ”شفافیت کی کمی اور کسی کہنے پر یا کسی کے دباؤ میں آکر ریکارڈ کو مسخ کرنا کسی بھی صورت ناقابلِ قبول ہے۔“
میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے اور نادرا کے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے اس بات کا اشارہ دیا کہ جو بھی کسی قسم کی ہیرا پھیری کا ذمہ دار ہوگا، وہ اپنے لیے خود مسائل پیدا کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ چاہے یہ کام سیاسی دباؤ کے تحت کیا گیا، یا مالی فوائد کے لیے دونوں صورت میں خطرناک تھا۔
وزیرِ داخلہ نے نادرا کے دفاتر میں بیرونی عناصر کے داخلے اور ان کے ادارے کے اہلکاروں کے ساتھ بات چیت پر بغیر اجازت پابندی عائد کردی۔
انہوں نے کہا کہ ”آپ میں سے کچھ لوگ جن کی دسترس میں انتہائی حساس ڈیٹا اور بہت سے اختیارات ہیں، اس تک رسائی حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔“
انہوں نے کہ وزارت داخلہ کو انٹیلیجنس ایجنسیوں کی طرف سے ایک ریفرنس موصول ہوا تھا کہ نادرا میں بہت سے لوگوں نے بغیر کسی سیکیورٹی کلیئرنس کے اعلیٰ عہدوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ”یہ سنگین معاملہ ہے اور اسے نئے تشکیل پانے والے نادرا کے بورڈ کے سپرد کیا جائے گا۔“
وفاقی وزیر نے کہا کہ وہ نادرا میں ڈائریکٹرز جنرل کے ایک بریگیڈ کے بارے میں جان کر فکرمند تھے۔
چوہدری نثار نے پوچھا کہ ”یہ کیسے ممکن ہے کہ بہت سارے جرنیلوں اور بہت کم سپاہیوں پر مشتمل فوج مؤثر طریقے سے ایک جنگ لڑ سکتی ہے؟“ انہوں نے مزید کہا کہ نادرا کا بورڈ ان کی کارکردگی کا جائزہ لے گا۔
وزیرِ داخلہ نے کہا کہ 2008ء کے سے ہزاروں لوگوں کو نادرا میں بھرتی کیا گیا تھا، اور یہ ادارہ تاحال درست تعداد کے حوالے سے پریشانی میں تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ بھرتیوں پر موجودہ حکومت کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں کے باوجود ہزاروں لوگوں کو خفیہ طور پر کسی ایڈورٹائزنگ کے بغیر شامل کیا گیا۔ ”نادرا اب ایک ریکروٹنگ ایجنسی کی صورت اختیار کرگیا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اس کا اکہتر فیصد بجٹ تنخواہوں کی مد میں چلا جاتا ہے۔“
انہوں نے کہا کہ بیرون ملک پوسٹنگز لوگوں کسی بھی معیار کے بغیر ان کی طرفداری کرتے ہوئے دے دی گئی تھیں اور بہت سے تو اپنے ڈیڑھ سالہ مدت کے اختتام کے بعد برسوں سے کام کررہے تھے۔
چوہدری نثار نے کہا کہ نادرا کے بورڈ کو ایک ریفرنس بھیجا جائے گا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جو لوگ اپنی مدت پوری کرنے کے بعد بھی کام کررہے ہیں، ان کو واپس بلا لینا چاہیٔے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب بیرون ممالک میں تعیناتی کے حوالے سے سختی کے ساتھ میرٹ پر عمل کیا جائے گا اور وزیر اور چیئرمین اس کے بارے میں فیصلہ نہیں کریں گے۔
چوہدری نثار نے نادار سے کہا کہ بریگیڈیئر زاہد حسین نے بطور قائم مقام چیئرمین کے ملازمین کے لیے دس فیصد کا اضافہ دیا تھا، اس بارے میں ان سے ایک وضاحت طلب کی جائے اور اگر وہ تین دن کے اندر جواب نہ دے سکیں تو ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ نے نادرا سے کہا کہ وہ انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے عمل کو بغیر کسی خوف یا طرفداری کے جاری رکھے ۔
نادرا کو ایک قومی اثاثہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی اس ادارے کی سرکاری حیثیت کے بارے میں شک نہیں ہونا چاہیٔے اس لیے کہ حکومت اس پر اربوں روپے خرچ کرچکی ہے۔ ”یہ وزارت داخلہ سے منسلک ایک شعبہ ہے۔“
انہوں نے کہا کہ نادرا ایک منافع بخش ادارہ تھا، اس لیے کہ حکومت کی جانب سے اس کو ڈیٹا اور رجسٹریشن کے حوالے سے اجارہ داری دی گئی تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نادرا کے نئے چیئرمین کا تقرر شفاف انداز میں میرٹ کی بنیاد پر کیا جائے گا۔
نادرا کے قائم مقام چیئرمین امتیاز تاجور نے وزیرِ داخلہ کو ادارے سے متعلق آپریشنل معاملات سمیت نیشنل رجسٹریشن پروگرام، ڈیٹا بیس کے جدید استعمال کے ساتھ ساتھ اہم قومی اور بین الاقوامی منصوبوں سے آگاہ کیا۔