نقطہ نظر

!کر ڈالو

مزاکرات کے حامیوں سے میرا صرف ایک سوال ہے کہ کیا طالبان کا ایجنڈا صرف فاٹا کے علاقے تک محدود ہے اور رہے گا؟

دہشت گردی ڈرون حملوں سے پہلے شروع ہوئی یا بعد میں؟ دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکا کی ہے یا ہماری؟

یہ سوالات آجکل پاکستان میں وہی حیثیت اختیار کر چکے ہیں جو دنیا میں ابھی تک مرغی پہلے آئی تھی یا انڈہ والے سوال کو حاصل ہے لیکن پاکستان میں معامله ان سوالات سے کہیں آگے نکل چکا ہے.

دہشت گردی کے مسئلے کو جس طرح سے سیاست چمکانے کے لئے استعمال کیا گیا ہے اور کیا جا رہا ہے اس سے بڑھ کر اس قوم کی ذہنی پسماندگی کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے. لوگوں سے صرف چند ووٹ بٹورنے کے لئے جس طرح سے دہشت گردی کو لے کر جذبات کو بھڑکایا گیا تھا اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب لوگ حقیقت کو سراب اور سراب کو حقیقت کہنے لگے ہیں. حقیقت پسندی کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنے اور پرائے کی تقسیم کی بحث سے نکال کر صرف اور صرف اسکے حل پر توجہ مرکوز کریں.

جہاں تک مزاکرات کا تعلق ہے تو طالبان سے پاکستان کے آئین، ریاست کی رٹ اور جغرافیائی سالمیت پر بات نہیں ہو سکتی اس ضمن میں تو طالبان ہی کیا دنیا کی کسی بھی قوت سے بات نہیں ہو سکتی.

حالیہ دنوں میں جہاں ایک طرف پاکستان کی افواج اور عام شہریوں پر حملے جاری رکھے گئے تو دوسری طرف لگے ہاتھوں مزاکرات کی پیشکش بھی کر ڈالی جس کا مقصد سوائے پاکستان کے اندر ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی کے لئے اتفاق رائے کے ماحول کو نہ بننے دینا کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا اور اس مفروضے پر حقیقت کی مہر راولپنڈی میں GHQ کے قریب خودکش دھماکہ کر کے ثبت کر دی گئی ہے.

ہر دھماکے کے بعد 'قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار' اور دوسری ہی سانس میں رٹو طوطے کی طرح 'مزاکرات اور آخری حربہ آپریشن' کی بانگ نے ریاست کو ایک کمزور پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے. طالبان کی جانب سے مزاکرات کے سبز باغ کے نام پر ہمارے چمن کو جس طرح سے اجاڑا جا رہا ہے اس سے ہی ان مزاکرات کے لئے طالبان کی نیت صاف واضح ہے.

سب سے اہم یہ کہ پاکستانی ریاست کی جانب سے اس مسئلے کو لے کر ملک میں جس قسم کی تقسیم پیدا کر دی گئی ہے اس سے فائدہ صرف طالبان کو ہی پہنچا ہے.

کیا عمران خان کی جانب سے آگ اور خوں کی اس بارش کے باوجود بھی مزاکرات کی رٹ قومی سلامتی کو نقصان نہیں پہنچا رہی؟ =

کیا تحریک انصاف کی جیسی سوچ رکھنے والی جماعتوں ہی کی جانب سے 'شہید' اور 'غیر شہید' کی بحث نہیں چھیڑی گئی؟ =

کیا ان سب کو اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ مزاکرات کا شوشہ چھوڑ کر طالبان نے پچھلے چند ماہ میں صرف اپنے آپ کو طاقتور کیا ہے، نت نئے دہشت گردی کے طریقے وضع کیے ہیں اور نہ جانے کتنے خودکش بمبار تیار کیے ہیں. خان صاحب پھر بھی معصومیت سے پوچھتے ہیں کہ میں پاکستانیوں کی ہونے والی 'ہلاکتوں کا ذمہ دار نواز شریف کو نہ کہوں تو کس کو کہوں؟'

دوسری جانب حکومت بھی مصلحتوں کا شکار ہو کر اور سیاسی مجبوریوں کو سامنے رکھ کر پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے. ارے جناب! ہوش میں آئیے ورنہ یہ زمین بھی پیروں تلے سے نکل جائے گی. حکومت آخر چاہتی کیا ہے کہ پاکستان میں سو فیصد رائے عامہ جب تک آپریشن کے حق میں نہیں ہو گی تب تک ایسے ہی ٹال مٹول سے کم چلایا جائے گا؟

کیا دنیا میں کوئی ایسی مثال موجود ہے جہاں پر سو فیصدی رائے عامہ ایک ہی موقف کے حق میں ہو؟

کیا ہوا اگر ایک یا دو سیاسی جماعتیں اس آپریشن کے خلاف ہوئیں، جب ملک میں امن و امان کا راج ہو گا تو لوگوں کو یہ بات یاد بھی نہیں رہنی. وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کی ریاست اس عفریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے، طالبان تو ایک طویل جنگ کی تیاری پر کمر بستہ ہیں لیکن ہماری ریاست گو مگو کا شکار ہے!

مزاکرات کے حامیوں سے میرا صرف ایک سوال ہے کہ کیا طالبان کا ایجنڈا صرف فاٹا کے علاقے تک محدود ہے اور رہے گا؟

ملک کی قوتیں تحریک طالبان کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ کہتی ہیں کہ یہ گمراہ لوگ ہیں، یہ ہمارے اپنے لوگ ہیں، اغیار کی سازشوں کی جانب بھی وقتاً فوقتاً اشارہ کر دیا جاتا ہے لیکن ان سب دور کی کوڑیوں میں جس چیز کو بھلا دیا جاتا ہے اسکا نام 'القاعدہ ' ہے.

القاعدہ ان دہشت گرد تنظیموں کی ماں ہے اور وہی انکی ذہن سازی کر رہی ہے، کون انکار کر سکتا ہے کہ القاعدہ کا ایجنڈا پاکستان میں اپنی برانڈ کی شریعت کا نفاذ ہے؟

القاعدہ اور اسکی ذیلی تنظیموں کو آپ ایک دوسرے سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے، یہ ایک ہی لڑی کے موتی ہیں اور انکے ذہنی رشتے آپس میں ہمارے لوٹے سیاستدانوں کی طرح نہیں جڑے ہوتے بلکہ انہیں ایک مقصد، ایک نظریہ اور ایک تحریک نے معصوم جانوں کے قتل عام اور فساد فی الارض پر تیار کیا ہے. جب ہم پاکستان کے آئین، سلامتی اور رٹ پر مزاکرات سے انکاری ہیں تو ان وحشی درندوں سے کیسے توقع کر رہے ہیں کہ وہ اپنے "مقدّس نظریئے" کو مزاکرات کی میز پر لے آئیں گے؟

تاریخ میں بعض مواقع ایسے آتے ہیں جن میں سیاسی رہنماؤں کو بہت مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں اور شائد ان رہنماؤں کی استعداد کوئی خاص بھی نہیں ہوتی لیکن تاریخ کا بے رحم ہاتھ انھیں قوموں کے ایک بہتر کل کے لئے کھینچ کر فیصلہ کن موڑ پر لا کھڑا کرتا ہے.

وزیراعظم نواز شریف سے درخواست یہی ہے کہ قوم نے انھیں بھاری مینڈیٹ دیا ہے، وہ کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت کے بغیر بھی اپنی حکومت قائم رکھ سکتے ہیں تو پھر بس اب اس مسئلے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے محدود پیمانے پر نہیں بلکہ ایک غضبناک جنگ کر کے ملک کے ہر گلی کوچے سے اسے کھدیڑ ڈالیے!!

علی منیر

علی منیر میڈیا سے منسلک ہیں اور سیاسیات اور سماجیات کے موضوعات پر بلاگنگ کرتے ہیں.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔