نقطہ نظر

مسٹر جیمز اسٹریچن اور مولانا وفائی

کراچی کی دل و جان سے خدمت کرنے والا یہ انگریز انجینئر اس شہر کو لندن کی طرز پر ترقی دینے کا خواہاں تھا۔

کراچی کی تعمیر و ترقی میں یوں تو بے شمار لوگو ں نے حصہ لیا لیکن ان میں ایک بہت بڑا نمایاں نام مسٹر جیمز اسٹریچن کا ہے۔ اسی طرح سیاسی و صحافتی حوالے سے مولانا دین محمد وفائی بھی ایک سرکردہ شخصیت تھے۔

سب سے پہلے ذکر کرتے ہیں جیمز اسٹریچن کا جو پیشے کے حوالے سے انجینئر تھے۔ محمد عثمان دموہی اپنی کتاب کراچی تاریخ کے آئینے میں جیمز اسٹریچن کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ؛

"کراچی کی دل و جان سے خدمت کرنے والا یہ انگریز انجینئر کراچی کو لندن کی طرز پر ترقی دینے کا خواہاں تھا۔ وہ نہایت ذہین اور قابل انسان تھا۔ اگرچہ وہ بنیادی طور پر ایک ریلوے انجینئر تھا مگر شہری منصوبہ بندی میں بھی زبردست مہارت رکھتا تھا۔ اس کا 1873ء میں کراچی میونسپلٹی کے چیف انجینئر اور سیکریٹری کے طور پر تقرر ہوا تھا۔ اس نے اپنی غیر معمولی ذہانت، محنت اور لگن سے کراچی شہر کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا تھا۔

انہوں نے ہی کراچی کے شہریوں کو ٹیلی فون اور بجلی کی سہولتیں بہم پہنچانے کے لئے پہلی دفعہ منصوبے بنائے اور وہ اپنی بلدیہ کی ملازمت کے دوران ہی ٹیلی فون کی سہولت اہل کراچی تک پہنچانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ مگر شہر کو بجلی کی فراہمی اس کے کراچی سے تبادلے کے بعد ممکن ہوئی۔ اس کی کوششوں کے نتیجے میں گھر گھر پانی کے کنکشن دئیے گئے تھے۔ اس سلسلے میں اسے پانچ سو پونڈ کا انعام بھی پیش کیا گیا تھا۔"

بلدیہ کراچی کی جانب سے شائع ہونے والے رسالے میں جیمز اسٹریچن کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے۔ ان تفصیلات کے مطابق 1873 میں ایک انجینئر جیمز اسٹریچن کا تقرر بلدیہ کے انجینئر کی حیثیت سے ہوا۔ وہ بہت غیر معمولی زہانت کے مالک تھے، انہوں نے اس شہر کا نقشہ ہی بدل دیا۔ ایمپریس مارکٹ بنوائی، میری ویدر ٹاور بنوایا، ٹراموے کمپنی قائم کرائی۔ ٹرام چلوائی، کیماڑی کا اسپتال بنوایا، ایک آرٹس کالج قائم کیا، کئی مارکیٹیں بنوائیں، سڑکیں بنوائیں اور بلدیہ کا دفتر میکلوڈ روڈ پر زیادہ بڑی جگہ منتقل کیا۔

اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پانی کی سپلائی کی ایک اسکیم حکومت کو پیش کی اور یہ بھی دھمکی دی کہ اگر بلدیہ کو یہ قرض نہ ملا تو پھر اسے اپنے وسائل سے اس اسکیم پر عمل درامد کرنا ہوگا۔ جن میں سرکاری گاڑیوں (فوجی) سے موٹر وہیکل ٹیکس کی وصولی، ٹرانزٹ ڈیوٹی میں اضافہ بھی شامل تھا۔

ٹیکس کی نئی تجاویز اور ان سے حاصل ہونے والی آمدنی کی تفصیل بھی اس کے ساتھ ہی حکومت کو پیش کردی گئی۔ چناں چہ حکومت نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے پہلی بار اس کی منظوری دے دی۔ اور جیمز اسٹریچن کو یہ فرض سونپا گیا کہ وہ اپنی نگرانی میں اس اسکیم پر عمل کرائیں۔

لاگت کا ابتدائی اندازہ 12 لاکھ روپے تھا لیکن حکومت نے کٹوتی کر کے آٹھ لاکھ کر دیا۔ چنانچہ پائپ کا قطر کم کر دیا گیا اور صرف دو کنوئیں بنائے گئے۔ 18 فروری 1880 کو پہلا رنرردو واٹر تیار ہوا اور اپریل 1883 میں یہ اسکیم مکمل ہو گئی، گورنر بمبئی نے اس کا افتتاح کیا۔

"کیپیٹل آف سندھ" نامی کتاب کے مطابق اس طرح کراچی میں پہلی بار نلوں کے زریعہ پانی کی سپلائی شروع ہوئی۔ اسّی ہزار کی آبادی کے لئے فی کس 45 گیلن یومیہ کے حساب سے پانی ملنے لگا اتنی وافر مقدار میں پانی اس شہر کے باسیوں کو پھر کبھی نصیب نہیں ہوا۔ اس اسکیم پر آٹھ لاکھ 54 ہزار روپے صرف ہوئے حکومت نے اس کارنامہ پر جیمز اسٹریچن کو انعام دیا کیونکہ اس طرح حکومت کو سالانہ 20 ہزار روپے کی بچت ہوئی جو اسے فوج کے لیے پانی سپلائی کرنے پر صرف کرنا پڑتا تھا۔

واٹر سپلائی اسکیم مکمل ہو جانے کے بعد شہر میں جگہ جگہ عوامی نلکے لگا دئیے گئے۔ گھر گھر کنکشن لگانے کا کام بھی انجام دیا جانے لگا۔ نیز کنوئیں بند کر دیئے گئے۔ صرف ان مقامات جہاں نل نہیں پہنچا وہاں کنوئیں کام کرتے رہے۔

مسٹر اسٹریچن نے پانی کی سپلائی میں اضافہ کرنے کی بھی کوشش کی اور پانی کی مقدار 30لاکھ گیلن یومیہ سے سے 35 لاکھ گیلن یومیہ ہوگئی اس طرح میونسپلٹی کے پاس 5 لاکھ گیلن یومیہ فالتو پانی ملنے لگا یہ پانی اس شہر میں درخت لگانے، باغیچے بنانے اور پارک بنانے پر صرف کیا گیا۔

پانی کی سپلائی کے ساتھ ساتھ گندے پانی کی نکاسی کی ایک علیحدہ اسکیم بھی انہوں نے بنائی جس پر لاگت کا اندازہ ساتھ لاکھ تھا۔ یہ اسکیم بھی منظور ہو گئی اور کام شروع کر دیا گیا۔ جیمز اسٹریچن نے انگلینڈ میں معیار زندگی کو ذہن میں رکھتے ہوئے کام کیا تھا لہٰذا گھر گھر پانی کا کنکشن دینا شروع کیا لیکن اس کے لیے بہت زیادہ رقم پائپ خریدنے پر صرف ہو رہی تھی اس لئے عوامی نلکے بڑھا دیے گئے اس وقت شہر میں 238 نلکے لگائے گئے اور شہر کے مختلف اہم مقامات پر فوارے نصب کئے گئے۔

جیمز اسٹریچن نے ٹراموے کمپنی قائم کرنے کے لیے کئی یورپی تاجروں سے بات کی اور اخراجات اور آمدنی کے گوشوارے بنا کر دیئے۔ چنانچہ ٹراموے کمپنی بنائی گئی، لیکن، جب تک ٹرامیں چلیں، جیمز اسٹریچن کا بلدیہ سے تبادلہ ہو چکا تھا۔

اسٹریچن نے سڑکوں کی روشنی کے لیے بجلی استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اور نجی بجلی کمپنی قائم کرانے کے لیے دوڑ دھوپ کی۔ لیکن یہ مقصد اس زمانے میں پورا نہیں ہو سکا کیونکہ یورپی حکمرانوں کو اس شہر سے اتنی زیادہ دلچسپی نہ تھی۔

بہرحال شہر کا نقشہ کافی تبدیل ہو گیا۔ جہاں گرد اڑتی تھی پارک اور باغ نظر آنے لگے۔ مکانات اور بنگلوں کے ساتھ درخت لگ گئے اور شہر کی حالت بالکل بدل گئی۔ کلفٹن اس زمانہ میں سمندر کے کنارے نہانے کی عمدہ جگہ تھی۔ لوگ سمندر کا نظارہ کرنے یہاں جمع ہوتے تھے۔ چنانچہ اس زمانے میں کلفٹن تک ٹریک بنایا گیا اور روشنی کا انتظام کیا گیا۔

اسٹریچن نے ہی سڑکوں پر روشنی کے لئے کیروسین (مٹی کا تیل) استعمال کرنے کی منظوری کرائی۔ کیوں کہ کھوپرے کا تیل عموماً بتی جلانے والے سیڑھی بر دار عملہ مقامی لوگوں کی جاتی تھی چنانچہ بلدیہ نے مٹی کے تیل کے استعمال کی منظوری 1883ء میں دے دی اس وقت ساٹھ میل طبی طویل سڑک پر ایک ہزار بتیاں لگائی گئی تھیں۔

مولانا دین محمد وفائی کے بارے میں جی ایم سید اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مولوی صاحب نے تصنیف و تالیف کا کام بہت زیادہ کیا ہے۔ ان کی تحریر کردہ کتابوں میں نمایاں سوانح حضرت محمد مصطفی، سوانح صدیق اکبر، سوانح فاروق اعظم، سیرت عثمان، سیرت حیدر کرار کرم اللہ وجہہ، سوانح خاتون جنت، سوانح غوث اعظم، نو مسلم ہندو مہارانیاں الختم علیٰ فہم الحضر (رد قادیانی)، ہندو دھرم اور قربانی شامل ہیں۔

مزید لکھتے ہیں کہ 1940ء میں جب میں وزیر تعلیم مقرر ہوا تو سندھی ادب کی بہتری اور اس کے فروغ کے لیے سندھی، ادبی مرکزی صلاح کار بورڈ قائم کیا اور مولوی صاحب کو رکن نامزد کیا۔ علاوہ ازیں سندھی لغت تیار کرنے کے لیے بھی ایک کمیٹی مقرر کی۔ جس میں مولوی فتح محمد سہوانی، جیٹھ مل پرس رام، عثمان علی انصاری، ڈاکٹر داؤد پوتہ اور مولوی دین محمد وفائی نے مشترکہ طور پر موجودہ سندھی لغت کی پہلی جلد تیار کی۔

قیام پاکستان کے بعد سندھی، درسی کتابوں میں از سر نو تیار کرنے کے لیے 1949ء میں ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ مولوی صاحب اس کمیٹی کے بھی رکن تھے۔ مولوی صاحب ایک نامور صحافی تھے پیر علی محمد راشدی اپنی کتاب "وہ دن وہ لوگ" میں لکھتے ہیں کہ جس وقت مولوی صاحب الوحید اخبار کے ایڈیٹر ہوئے وہ بڑا صبر آزما دور تھا۔ اس زمانے میں الوحید اخبار کے ایڈیٹر ہونے کے معنی یہ ہوتے تھے کہ ایک پیر الوحید پریس میں تو دوسرا پیر جیل۔

الوحید کے ایڈیٹر مسلسل گرفتار ہوتے رہتے تھے لیکن یہ سیٹ کبھی خالی نہ رہی۔ مولانا دین محمد وفائی ان جاں باز غریبوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے ذہن اور قلم کے زور سے اپنی تمام عمر دشواریوں میں گزار کر سندھ میں آزادی اور عزت نفس کے جذبے کو بیدار کیا۔

جہاں تک انکی تحریروں کا تعلق ہے مجھے ان کا ایک مضمون خاص طور پر بہت پسند آیا۔ جو "الحزب" سکھر میں شائع ہوا تھا۔ اس کا عنوان "عشاق کانفرنس" تھا۔ مضمون میں دنیا کے نام ور عاشقوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے ان کے عشق کی وارداتیں ان کی زبانی بیان کرائی گئیں تھی۔

مولوی دین محمد کے بارے میں جو بھی تحریریں ملی ہیں۔ اس سے ان کی شخصیت پر مذہبی رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ سندھ کی ترقی اور تعلیم کو تمام چیزوں پر ترجیح دیتے تھے۔

فوٹو -- اختر بلوچ

جیمز اسٹریچن کا ذکر تو ہم پہلے ہی کرچکے ہیں اور مولوی صاحب کا حال بھی ہم نے بیان کر دیا۔ جیمز اسٹریچن کی خدمات کے صلے میں کراچی میں ایک سڑک ان کے نام سے منسوب کی گئی تھی۔ یہ سڑک پاکستان چوک سے شروع ہوکر آرٹس کونسل پر ختم ہوجاتی ہے۔

فوٹو -- اختر بلوچ

یہ سڑک اب سرکاری طور پر مولوی دین محمد وفائی روڈ ہے۔ لیکن اس پوری سڑک کا دورہ کرنے کے باوجود ہمیں اس نام کا کوئی سرکاری بورڈ نظر نہیں آیا۔ لیکن البتہ دو تین عمارتوں پر سڑک کا نام مولوی دین محمد وفائی روڈ لکھا ہوا ہے۔ لیکن جیسے ہی آپ پاکستان چوک سے اس سڑک پر سفر کا آغاز کریں گے تو بائیں جانب ٹریفک پولیس چوکی کے بعد ایک گودام کی عمارت ہے جس پر تاحال سڑک کا پتہ اسٹریچن روڈ لکھا ہوا ہے۔ آپ ہی شاید اس تحریر کو پڑھنے کے بعد میری رہ نمائی کرسکیں کہ میں اس سڑک کو کس نام سے یاد کروں۔

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔