نقطہ نظر

تبدیلی' کا فارمولا'

سیاستدان دقیانوسی سسٹم کو بدلنے کے بجائے طاقت بہم پہنچاتے ہیں، تاکہ انہیں اپنی سہولتیں اور مراعات بدستور ملتی رہیں-

یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ سیاست دانوں میں معاشرے کے سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل کے سوجھ بوجھ کی ایک گہری دانائی ہوتی ہے، کیونکہ ان کے پاس ان مسائل کو سلجھانے کی طاقت، صلاحیت اور ذہانت ہوتی ہے- وہ مشکل بحرانوں پر قابو پاکر معاشرے کی شکل بدل سکتے ہیں-

اصل حقیقت تو یہ ہے، کہ سیاست دان فرسودہ اور دقیانوسی سسٹم کو بدلنے کے بجائے ان کو طاقت بہم پہنچاتے ہیں، تاکہ انہیں وہ سہولتیں اور مراعات بدستور ملتی رہیں- وہ تبدیلی سے نفرت کرتے ہیں جو ان کے مفادات پر ضرب لگا سکتا ہے اور ان کی اعلیٰ حیثیت کو نقصان پہنچا سکتا ہے-

اپنی کتاب 'دی ریپبلک' میں افلاطون نے سیاست دانوں کے کردار کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا ہدف محدود اور ان کا ایجنڈہ قلیل المدت ہوتا ہے- ان کی دلچسپی صرف اس میں ہوتی ہے کہ جب تک وہ اقتدار میں ہوں صورت حال میں کوئی تبدیلی نہ آئے جو ان کی حیثیت کو غیر مستحکم کرسکتی ہے- وہ اپنی لفاظی سے ہمیشہ لوگوں کااستحصال کرتے ہیں اور ان میں سے جو ترغیب دینے کے فن کے ماہر ہوتے ہیں آسانی سے عوامی رائے اپنے حق میں کرلیتے ہیں- مگر ان کا اصل مقصد اپنے اقتدار کا دوام ہوتا ہے- اسلئے، بجائے اس کے کہ معاشرے کو بدلیں، وہ عوامی رائے کو تسلیم کرکے اکثریت کے مطالبات مان لیتے ہیں- یہ تنقید آج بھی، ہمارے جدید جمہوری نظام میں اتنی ہی سچ ہے-

پاکستان میں، شروع سے ہمارا یہ مشاہدہ ہے، کہ کسی سیاست دان نے پرانے نظام کو بدلنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ ہمیشہ سرگرمی سے عوامی رائے کی پیروی کی- وہ سیاست دان جو اپنی ذاتی زندگیوں میں بالکل بھی مذہبی نہیں تھے وہ لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے کٹر مذہبی بن گئے-

مثال کے طور پر، ایوب خان نے، جواپنے کو آزاد خیال اور جدید انسان تصور کرتے تھے، خود کو دیندار اور پرہیزگار ثابت کرنے کیلئے کئی مذہبی ادارے تشکیل دئے اور مذہبی علماء کی سرپرستی کی تاکہ عام لوگوں کی حمایت حاصل کی جا سکے- بالکل اسی طرح، جب بھٹو اقتدار میں آئے، انہوں نے فوراً ہی مذہبی جماعتوں کی رائے کے آگے ہتھیار ڈال دئے، ان کے ایجنڈے کو نافذ کیا اور اس طرح سبقت کی مثال قائم کی- اس کے بعد سے، تقریباً ساری سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈروں نے مذہبی جماعتوں کی ہر بات کی فرمانبردای کے ساتھ تعمیل کی- نتیجتاً، معاشرے کو تبدیل کرنے میں ناکام رہے-

دوسرے عوامل جنہوں نے تبدیلیوں کا راستہ روکا وہ سیاست دان ہیں، جو یا تو فیوڈل لارڈز ہیں، سجادہ نشین ہیں (صوفی عالموں کے جانشین) یا پھر ابھرتے ہوئے صنعت کار؛ جن کا فائدہ موجودہ نظام کو برقرار رکھنے میں ہے، کیونکہ یہ ان کے سماجی مرتبے اور خصوصی مراعات کو تحفظ دیتا ہے-

اس کے بعد ذمہ داری عالموں، ذی فہم لوگوں اور فن کاروں کی ہے جنہیں نئے تصورات کی تخلیق کرنی چاہئے، جومعاشرے کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کریں اور پرانے نظام میں دور حاضر کی ضرورتوں کے مطابق اصلاحات کریں- کیونکہ نئے تصورات کی غیرموجودگی میں، معاشرہ جامد ہوجاتا ہے-

یورپ میں، عقلیت کی تحریک نے، جسے روشن خیالی کا دور بھی کہتے ہیں بڑی تعداد میں فلسفی، ادبی شخصیات اور فنکار پیدا کئے جنہوں نے دقیانوسی سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کو چیلینج کیا، اور چرچ کے اختیارات کو بھی للکارا- ان کی کوششوں کے نتیجے میں عوامی سوچ میں تبدیلی آئی اور آزاد خیالی، برداشت اور سیکولر خیالات کا رواج ہوا- حکمران طبقے اور سیاست دان ایسی اصلاحات متعارف کروانے پر مجبور ہوئے جو معاشرے کے ڈھانچے میں تبدیلی لائیں- اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک جمہوری معاشرے میں، سیاست دانوں کو عوامی رائے کا احترام کرکے تبدیلی کا آلہ کاربننا چاہئے، اور عوام کو انہیں یہ کرنے پر مجبور کرنا چاہئے-

پاکستان میں، المیہ یہ ہے کہ دانشور طبقے میں اتنی تخلیقی صلاحیتیں نہیں ہیں کہ نئے تصورات کی تخلیق کرکے قدآمت پسند اور آزاد خیالی کے مخالفین کے خلاف جدوجہد شروع کریں- اس کے برخلاف، وہ تبدیلی کے بجائے بوسیدہ اقدار اور دقیانوسی روائتوں کی حمایت شروع کردیتے ہیں تاکہ ان کے اپنے فوائد اور مراعات ان کو ملتے رہیں-

اس کے بعد مذہبی علماء اس خلا کو جو انقلابی دانشوروں کی غیر موجودگی سے پیدا ہوتا ہے پر کرنے کیلئے آجاتے ہیں- وہ نہ صرف اپنے مذہبی خیالات کو موثّر طریقے سے پھیلاتے ہیں بلکہ لوگوں کے خیالات کو تبدیل کرکے ان کو اپنا ہم خیال بنالیتے ہیں- وہ ایک ایسے منظم اور طاقتور گروہ کا روپ دھار لیتے ہیں کہ ان کے اختیارات کو چیلینج کرنے کی کسی میں ہمت نہیں ہوتی-

ان کے نظریات کورس کی کتابوں میں درج ہوتے ہیں تاکہ نوجوان اثر پذیر ذہنوں کو بآسانی ڈھال سکیں- وہ میڈیا اور ٹکنالوجی مثلا ڈی وِی ڈی اور ٹکسٹ کے ذریعے پیغامات اور انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں اور ایسے اجتماعات میں حصہ لیتے ہیں جہاں ہزاروں لوگ اپنے لیڈروں سے عقیدت کا اظہار کرنے کیلئے جمع ہوں-

نتیجتاً، مذہبی لیڈروں کا اثر و نفوذ روز بروز بڑھ رہا ہے- اور اب تو سیاست دانوں نے بھی ان کی حمایت حاصل کرنے کی طرف اپنی توجہ مرکوز کرلی ہے تاکہ ان کو عوامی حمایت ملے-

بظاہر، تو ایسا کوئی بھی نظر نہیں آتا جو آگے بڑھ کے مذہبی انتہا پسندی کے سامنے کھڑا ہوسکے، نئے خیالات کی تخلیق کرکے معاشرے کو بدلنے کی کوشش کرے- لوگوں میں سیاست دانوں سے کوئی امید یا توقع باقی نہیں رہی ہے کہ وہ کوئی انقلابی اور جدید کردار ادا کرینگے اس کوشش میں کہ اس معاشرے کو ایک نئی شکل دیں، اسے نئے طریقے سے دوبارہ منظم کریں اور نئے سرے سے اس کی دوبارہ تعمیر کریں-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ ۔ علی مظفر جعفری

مبارک علی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔