پاکستان

اسلام آباد: منافع کیلئے تاریخی آثار کی تباہی

دوسری سے پانچویں صدی قبل مسیح سے تعلق رکھنے والے قدیم غار اور آثار کو نئی تعمیرات سے خطرہ ۔

اسلام آباد: پاکستان میں آثارِ قدیمہ کے ممتاز ماہرِ ڈاکٹر پروفیسر احمد حسن دانی نے اب سے کئی برس قبل 1995 میں خبردار کیا تھا کہ اگر مناسب دیکھ بھال نہ کی گئی تو شہر میں 2,400 سال قدیم تاریخی آثار غائب ہوجائیں گے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ اب یہی حال بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والے غاروں کا بھی ہونے جارہا ہے جو شہر کے مغربی کنارے پر مارگلہ پہاڑ کے دامن میں ایک مقام شاہ اللہ دتہ کے پاس موجود ہیں اور وہ دوسری صدی قبل مسیح ( بی سی) سے پانچ قبل مسیح تک قدیم ہیں۔

زمین پر قبضہ کرنے اور تجاوزات بڑھانے والے گندھارا کے مشہور آثار سے لے کر ٹیکسلا کے کھنڈرات تک ہر جگہ ہی سرگرم ہیں۔

' غاروں کی دیواروں پر پینٹ کے نشانات آسانی سے دیکھے جاسکتے ہیں، کچھ اسی طرح کے رنگ ٹیکسلا میں سب سے محفوظ کردہ سائٹ ' جنا والی ڈھری ' پر پھیرے گئے ہیں،' ڈپارٹمنٹ آف آرکیالوجی اینڈ میوزیم ( ڈی او اے ایم) سے وابستہ ایک ماہر نے کہا۔

سول سوسائٹی اور ماہرین کی جانب سے دائر کی جانے والا عدالتی عمل 1995 میں ہی ختم ہوگیا۔ لیکن اب ' سرمایہ کاروں ' کی جانب سے اس اہم تاریخی مقام کو نیا خطرہ لاحق ہوگیا ہے ۔

پرائیوٹ سرمایہ کار اس جگہ بلند رہائشی اسکیمیں اور ریستوران کھولنا چاہتے ہیں۔

غاروں کےساتھ ہی ایک اعلیٰ معیار کی کثیر منزلہ ریستوران کھل گئی ہے۔

اس کے بعد اس کے مالک کا حوصلہ بڑھا کہ اس نے کاروبار بڑھاتے بڑھاتے اب وہ غار کے عین کنارے پر لے آیا ہے۔

ریستوران کے مالک کا دعویٰ ہے کہ یہ زمین کئی نسلوں سے اس کی ملکیت ہے۔

پچاس سالہ محمد اسماعیل جو اس سائٹ پر کھانے پینے کا چھوٹا ساکاروبار چلاتا ہے ، نے کہا کہ اس کے دادا نے تقسیم سے پہلے غار کے اردگرد کی موجود سولہ کنال زمین ایک ہندو اوگن داس بابا سے خریدی تھی۔

آرکیالوجی اینڈ میوزیم ڈپارٹمنٹ کے مطابق اب غاروں پر جو سیڑھیاں بنائی گئی ہیں وہ غاروں کیلئے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔

اس سے بد تر یہ ہے کہ کپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( سی ڈی اے ) نے سینکڑوں سال قدیم سدھو کا باغ نامی جگہ کو کنکریٹ کے ریسٹ ہاؤس میں بدل دیا ہے جو بدھ مت غاروں کے اطراف موجود ہیں۔ یہاں صرف آم کے پرانے پیڑ چھوڑ دیئے گئے ہیں جو آنے والوں کو یہاں کی قدیم تاریخ کا تصور کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

گلمپسس انٹو اسلام آباد سول نامی کتاب کی مصنفہ اور پینٹر فوزیہ من اللہ نے تاریخی مقامات سے متعلقہ اداروں کی غفلت کو مجرمانہ قرار دیا ہے۔

' ان میں سے بعض نئی تعمیرات کورٹ کے اسٹے آرڈر کے باوجود بھی بنائی جارہی ہیں،' انہوں نے ڈان اخبار کو بتایا۔

' سی ڈی اے نے سعید پور نامی گاؤں کی تعمیر کے دوران بھی بدھ عہد کے غاروں کیساتھ بھی یہی برتاؤ کیا تھا۔

دوہزاردس میں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ڈی او اے ایم کے اشتراک سے اس آثار کیلئے ایک منصوبہ شروع کیا تھا لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکا۔

وہ منصوبہ شروع ہی نہ ہوسکا۔ اب محکمہ آثار سی ڈی اے سے بار بار کہہ رہا ہے کہ وہ علاقے کی تفصیلات، نقشہ اور حدود وغیرہ سے آگاہ کرے تاکہ اسے 1975 کے اینٹی کویٹیز ایکٹ کے تحت محفوظ قرار دیا جاسکے۔

' غاروں کے 200 فٹ اطراف میں کسی قسم کی تعمیر غیرقانونی تصور کی جانی چاہئے،' ڈاکٹر فضل داد کاکڑ نے کہا جو ایک ماہرِ آثار ہیں۔

کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت تبدیل ہونے کے بعد اس پروجیکٹ کا بھی وہی حشر ہوا جو دیگر پروجیکٹس کا ہوتا ہے۔

' غاروں کو بچانے کیلئے اگلی ہدایات تک تمام تعمیراتی کام کو روک دیا جانا چاہئے،' انہوں نے کہا۔