نقطہ نظر

ہولناک جُرم

کراچی کے مزار پر چھ زائرین ذبح، ٹی ٹی پی شہر کے اندر اپنے اہداف بڑھارہی ہے۔

مقامی سطح پر ہونے والے جرائم کے مقابلے میں، یہ خوفزدہ کردینے والا نہایت سفاکانہ جُرم ہے۔ کراچی کے مضافات میں واقع گلشنِ معمار کے قریب ویرانے میں، ایک مزار پر منگل کو چھ افراد کی گردنیں تن سے جُدا کردی گئیں۔ ان افراد کی زندگیوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ سفاک حملہ آوروں نے مزار کی بے حرمتی کی اور اسے نقصان بھی پہنچایا ہے۔

اطلاعات کے مطابق جائے وقوع سےایک تحریر بھی ملی ہے جس میں ٹی ٹی پی نے خبردار کیا کہ اگر کسی نے مزار پر آنے کی جرات کی تو وہ بھی ایسے ہی انجام سے دوچار ہوگا۔

وہ تمام مذاہب و عقائد جو مذہبی عسکریت پسندوں کی تنگ نظری پر مبنی اسلام کی تشریحات کے دائرے میں نہیں سماتے، یہ انہیں برداشت نہیں کرتے اور ان کی یہ خاصیت سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہ مختلف علاقوں کی بدقسمت رواح کو اس طرح کی سزائیں دینے پر بھی شہرت رکھتے ہیں جبکہ ملک بھر میں مختلف مزارات پر حملوں کی شہرتِ بد بھی ان کا طرہّ امتیاز ہے۔

کراچی خود سن دو ہزار دس میں شہر کی معروف ترین درگاہ عبداللہ شاہ غازی پر ایسے حملے کا مشاہدہ کرچکا، جس کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مذہبی عسکریت پسندوں کا ترتیب دیا ہوا تھا۔

علاوہ ازیں تمام چیزیں زیرِ غور رکھتے ہوئے، ضرورت ہے کہ گلشنِ معمار کے اس بھیانک واقعے کی مزید گہرائی سے تفتیش کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش کی جائے کہ آیا اس میں واقعی ٹی ٹی پی ملوث تھی یا پھر دیگر مجرموں نے یہ سنگین جُرم کیا اور پردہ پوشی کی خاطر عسکریت پسندوں کے سر منڈھ دیا۔

کراچی میں، اس طرح سفاکی سے پہلی بار لوگوں کو ذبح نہیں کیا گیا ہے۔ گذشتہ برس نومبر میں بھی ایک عامل کی سر کٹی لاش ملی جبکہ سر شہر کے ایک پُل سے لٹکتا پایا گیا تھا۔ اس کیس کی تحقیقات بھی بے نتیجہ ثابت ہوئی تھیں۔

صرف تحقیقات کے نتیجے میں ہی یہ حقیقت ثابت کی جاسکتی ہے اور اگر اس طرح کے بہیمانہ واقعات میں بلاشبہ انتہا پسند عناصر ملوث پائے جائیں تو پھر بدترین تشدد کا سامنا کرنے والے کراچی کے نئے اور طاقتور کھلاڑی کا مقابلہ کرنے کے واسطے ریاست کو تیاری کرنا ہی پڑے گی۔

گذشتہ کئی برسوں سے کراچی، بالخصوص اس کے مضافاتی علاقوں میں خاموشی سے طالبان کے پھیلاؤ اور زور پکڑنے کی باتیں کی جاتی رہی ہیں۔

اُن علاقوں میں جہاں ٹی ٹی پی کا اثر بتایا جاتا ہے، وہاں پولیس اہلکاروں، پولیورضا کاروں اور سیاسی کارکنوں پر حملے بھی کیے جاچکے جبکہ یہ بھی علم میں ہے کہ شہر کے بعض مضافاتی علاقوں میں شرعی عدالتیں بھی موجود ہیں۔

کراچی میں تشدد پھیلانے والے عناصر پہلے ہی بہت ہیں۔ اگر طالبان کے بڑھتے خطرے کی شناخت اور اس کے خاتمے میں حکام ناکام رہے تو پھر مزار پر ہونے والے یہ سفاکانہ واقعہ، شہر میں شدت پسندوں کے بڑھتے اہداف کی صرف ابتدا ہے۔

انگریزی میں پڑھیں

ڈان اخبار