نقطہ نظر

گیارہ اگست کی تقریر کے گواہ

ہو سکتا ہے کل کو اوریا صاحب یا کوئی اور یہ دعویٰ بھی کردے کہ قرارداد مقاصد کبھی منظور ہوئی ہی نہ تھی۔

پچھلے چند دنوں سے ایک بحث نے میڈیا کا احاطہ کر رکھا ہے اور اس بحث کا موضوع ہے قائداعظم محمد علی جناح کی تاریخی تقریر جو انہوں نے پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کے روبرو 11 اگست 1947 کو کی تھی۔

ویسے تو یہ تقریر بارہا چھپ چکی ہے اور قائداعظم کی 100ویں سالگرہ 1976 کے موقعے پر جناب جعفر ملک، آئی اے رحمٰن اور غنی جعفر نے غالباً پہلی دفعہ اس تقریر سمیت قائداعظم کی بہت سی نادر تقاریر کو کتابی شکل میں چھاپ کر پبلک بھی کر دیا تھا۔

اب اس تقریر کے مستند حوالہ جات مولانا بہاالحق قاسمی کے پوتے اور عطاالحق قاسمی کے فرزند یاسر پیرزادہ نے اپنے فیس بک صفحے پر بھی چسپاں کر دیے ہیں۔ ایک حوالہ تو پنجاب اسمبلی لائبریری میں موجود سرکاری تقاریر کے ریکارڈ پر مشتمل دستاویز کا ہے اور دوسرا حوالہ انڈین اخبار ‘ہندو’ کا ہے۔

یہ نئے ابھرتے ‘سیکولر’ دانشور ہیں مگر زیرنظر مضمون میں ‘پیرزادوں’ اور ‘اوریاؤں’ کی لڑائی سے پرہیز کرتے ہوئے آپ کو ایک ایسے شخص کی گفتگو سے متعارف کروایا جارہا ہے جس نے یہ تقریر خود ہوش و حواس میں سنی تھی۔

اوریا صاحب کو بھی یہ حضرت یقیناً پسند ہوں گے کیونکہ عمر حیات ملک کی طرح ان کا شمار پہلی آئین ساز اسمبلی کے ان چند اراکین و محافظین میں ہوتا ہے جن کا ذکر جماعت اسلامی ٹائپ کی تمام جماعتوں کے لٹریچر میں بطور خاص موجود ہے۔

جی ہاں، یہ وہی محافظین ہیں جو قائداعظم کی وفات کے بعد قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنانے کے ذمّے دار اور آئین کی سمت متعین کرنے کے لیے بنیادی اصول وضع کرنے والی کمیٹی یعنی Basic Principles Committee کو غیرموثر کرنے میں بھی پیش پیش تھے۔

ویسے تو اس ٹولے میں پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان، اسپیکر اسمبلی مولوی تمیزالدین خان، وزیر خارجہ سر ظفر اللہ، عبدالرّب نشتر سے لے کر چوہدری محمد علی اور عمر حیات ملک سمیت بہت سے پردہ نشینوں کے نام شامل ہیں (اس بارے تفصیلات قرارداد مقاصد کے حوالہ سے لکھے جانے والے مضمون میں آئیں گی)۔

اس مضمون میں ہم محترم چوہدری نذیر احمد کے انٹرویو کے اس حصّے پر غور کریں گے جو 11 اگست کی تقریر سے متعلق ہے۔ یہ چوہدری نذیر نہ صرف مونٹگمری (ساہیوال) سے پہلی آئین ساز اسمبلی کے رکن تھے بلکہ وزیراعظم لیاقت خان کی کابینہ میں وفاقی وزیرصنعت کا فريضہ بھی انہوں نے سرانجام دیا۔ پنجاب مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے بھی رکن تھے۔

چوھدری صاحب کا یہ انٹرویو ان 13 انٹرویوز میں شامل ہے جو سید محمد ذوالقرنین زیدی الھما نے 1970 کی دہائی کے وسط میں لیے تھے۔ ان 13 انٹرویوز کو ایک کتاب کی شکل میں چھاپنے کا فريضہ قومی ادارہ برائے تحقیق، تاریخ و ثقافت اسلام آباد نے 1990 کو سرانجام دیا۔ یہ ادارہ آج بھی کام کر رہا ہے اور قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے عقب میں قائم ہے۔

سہارن پور میں پیدا ہونے والے زیدی صاحب نے بطور لیکچرار نواب شاہ (سندھ) سے ملازمت شروع کی اور 1967 سے 1990 تک اسلام آباد کے سرکاری کالج میں پڑھاتے رہے۔ ان کے جن شاگردوں سے بھی ملاقات ہوئی وہ آج بھی مرحوم کی تعریف کرتے ہیں۔

13 انٹرویوز پر مشتمل اس کتاب کا نام ہے ‘قائداعظم کے رفقاء سے ملاقاتیں’۔ اس میں جن 13 اصحاب کے انٹرویو ہیں یہ وہ شخصیات ہیں جو قائداعظم سے خود ملے تھے اور 1970 کی دہائی کے وسط تک زندہ بھی تھے۔ چوہدری نذیر احمد نے 11 اگست کی تقریر کے حوالہ سے جو گفتگو کی وہ پہلے خود پڑھ لیں جو اس کتاب کے صفحہ 71 پر رقم ہے۔ چوہدری نذیر کہتے ہیں؛

‘اس وقت بعض لوگ کہنے لگے تھے کہ قائداعظم نے جو یہ فرمایا ہے کہ ہندو اپنے مندروں میں جائیں، مسلمان اپنی مسجدوں میں اور عیسائی اپنے گرجوں میں وغیرہ۔ تو کیا یہ بات اسلامی نظریہ کے مطابق ہے؟

قائداعظم کی رائے کی مخالفت کرنا تو قریب قریب گناہ کے مترادف تھا لیکن اتنا مجھے یاد ہے کہ ہم لوگ آپس میں بیٹھ کر یہ باتیں کرتے تھے کہ قائداعظم سے اس کے بارے میں بات چیت کریں گے کہ ان کا صحیح مطلب کیا ہے۔ کوئی کہتا تھا کہ قائداعظم نے اسلامی ریاست کے تصور کو ترک کر دیا ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، قائداعظم نے اسلامی ریاست کے تصور کو ترک تو نہیں کیا تھا اور نہ ہی انہوں نے اُس رنگ میں پیش کیا جس میں اقبال نے پیش کیا تھا۔ ابھی تو مسلمانوں کے وطن کے سلسلے میں سارا نقشہ ذہن میں نہیں اترا تھا کیونکہ اس وقت گھمبیر مسائل پاکستان کو درپیش تھے۔ جس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے اور پھر مسلمانوں کا اتنا قتل عام ہو رہا تھا جس کا قائداعظم کے دل اور دماغ پر بڑا اثر تھا۔ تو میرے خیال میں بھی اسلامی ریاست کا نقشہ ان کے ذہن میں ابھرا نہیں تھا یا ان کو موقعہ نہیں ملا تھا کہ اس کو واضح کریں۔’

اسی کتاب میں محمد ایوب کھوڑو کا انٹرویو بھی ہے۔ یہ بھی مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن تھے۔ انھوں نے 11 اگست کی تقریر بارے کہا

‘جناح صاحب کی وہ تقریر بہت اچھی تھی، ان کی یہ خواہش نہیں تھی کہ اقلیتیں پاکستان کو چھوڑ کر چلی جائیں۔ ہندوستان میں ہمارے چار کروڑ مسلمان رہ گئے تھے۔ وہ اس ریاست کو مذہبی ریاست کا رنگ دینا نہیں چاہتے تھے اور نہ ہی یہ کوئی مذہبی ریاست تھی اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جناح صاحب اسلامی ریاست کا قیام چاہتے تھے وہ الو کے پٹھے ہیں۔ جو لوگ جناح صاحب کو ولی اللہ بنا رہے ہیں، وہ غلط ہیں۔ وہ کوئی ولی اللہ نہیں تھے۔ وہ ایک سیاست دان تھے اور مدبر تھے۔ وہ بدلے ہوے حالات میں مسلم لیگ کا کردار بھی بدلنے کا ارادہ رکھتے تھے۔’

اب بھی اگر کوئی یہ کہے کہ وہ تقریر بعد کی تخلیق تھی تو بتائیں اسے بھلا کس خطاب سے نوازا جائے؟

ہو سکتا ہے کل کو اوریا صاحب یا کوئی اور یہ دعویٰ بھی کر دے کہ قرارداد مقاصد کبھی منظور ہوئی ہی نہ تھی۔ خیر اب چوہدری نذیر کی گفتگو پر تبصرہ بھی سن لیں۔

چوہدری نذیر کے انٹرویو سے یہ معلوم ہو گیا کہ جس وقت جناح تقریر کر رہے تھے اس وقت ہی چند مخصوص ذہنیت کے حامل افراد کا پارہ چڑھ گیا تھا۔ وہ قائداعظم کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتے تھے مگر ان کی رحلت کے بعد وہ اس دستاویز کو چھپانے کا کام کرتے رہے جو تاحال جاری ہے۔

حقیقت کچھ اس سے بھی زیادہ تلخ ہے۔ جو کچھ قائداعظم نے 11 اگست 1947 کو کہا وہ خطبہ الہٰ آباد (1930) سے مختلف نہیں کہ اس خطبہ میں بھی اقبال نے ثقافتی، مذہبی، قومتی اور لسانی رنگارنگی کو تسلیم کرنے کی بات کی تھی۔

ہمارے نصاب میں نہ تو خطبہ الہٰ آباد مکمل چھاپا جاتا ہے اور نہ ہی 11 اگست کی تقریر. یہ اظہار ہے اس ذہنیت کا جو اقبال و جناح تک کے خیالات کو تروڑ مروڑ کر پیش کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے۔

یاسر پیرزادہ کے والد تو آج کل ‘سرکار دربار’ کے بہت نزدیک ہیں انہیں چاہیے کہ وہ خطبہ الہٰ آباد اور 11 اگست کی تقاریر کو چاروں صوبوں کی مطالعہ پاکستان نہم، دہم اور گیارہویں، بارہویں کے لیے لازم قرار دلوا دیں۔ اوریا صاحب خاطر جمع رکھیں کہ 11 اگست کی تقریر کی رپورٹنگ نہ صرف پاکستان ٹائمز اور ایسٹرن ٹائمز میں بھی ہوئی تھی بلکہ قومی آرکائیو میں بھی یہ دستاویز محفوظ ہے۔

عامر ریاض

عامر ریاض لاہور میں رہتے ہیں۔ تعلیم، بائیں بازو کی سیاست، تاریخ ہند و پنجاب ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کون سے قائد اعظم؟