پاکستان

پرندوں کی جنت تباہ ہورہی ہے

ہالیجی کو رامسر سائٹ کا درجہ دیا گیا ہے، گندے پانی کے نالے سے جھیل کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

کراچی: پہلے کبھی مہمان پرندوں کیلئے جنت کہلانے والی ہالیجی جھیل تاحال ایک قابلِ رحم حالت میں ہے کیونکہ اس کے بالکل قریب ایک بہت بڑا نالہ رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین ( آر بی او ڈی) گزررہا ہے جبکہ ہالیجی جھیل میں گزشتہ پانچ برس سے پانی نہیں چھوڑا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق جھیل کے ماحول اور حالت کیلئے یہ ایک بہت ہی بڑا خطرہ ہے کیونکہ ایک طویل عرصے سے جھیل میں تازہ پانی شامل نہیں ہورہا یا بہت کم مقدار میں شامل کیا جارہا ہے۔

' آربی او ڈی جھیل کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے کیونکہ اس کا پانی کراچی کو بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ نالہ ( آربی او ڈی) جھیل کا راستہ توڑنے کے بعد بنایا گیا ہے۔ اسی لئے ہم جھیل کو پانی فراہم نہیں کرسکتے،' جھیل پر موجود کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ( کے ڈبلیو ایس بی) کے ایک آفیشل نے کہا۔

کراچی واٹر بورڈ نے کئی مرتبہ جھیل میں اسی راستے سے پانی شامل کرنے کی کوشش کی لیکن اس طرح یہ بہت مشکل ہے کیونکہ پانی واپس پلٹ کر آتا ہے۔

' نتیجتاً، جھیل کو پانی کم کم ملتا ہے،' اس نے کہا۔

کے ڈبلیو ایس بی کے افسر نے کہا کہ ان کے ادارے نے کئی مرتبہ محکمہ آب پاشی کے افسران سے رابطہ کیا ہے تاکہ جھیل کے اندر آنے والا پانی کا راستہ بحال کیا جائے لیکن کوئی سنوائی نہیں ہوسکی۔

آربی او ڈی کے ذریعے زراعت اور صنعتوں سے نکلنے والے گندے پانی کو کراچی کے سمندر میں گرایا جاتا ہے۔ جب اس نالے کا معائنہ کیا گیا تو انکشاف ہوا کہ اس کی سطح پر سیمنٹ یا کسی اور مادے کی کوئی استرکاری نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی کام دوبارہ شروع ہونے کے آثار نظر آئے ۔ تاہم نالہ آلودہ پانی سے بھرا ہوا تھا۔

جب تک اس جھیل سے کراچی کو پانی فراہم کیا جاتا رہا تھا اس کی حالت بہتر تھی کیونکہ پانی کی آمد و رفت کا چکر جاری تھی۔ پھر حکومت نے پندرہ یا بیس سال قبل کینجھر جھیل سے کراچی کو پانی دینے کا ایک چینل بنایا اور یوں ہالیجی میں تازہ پانی کی آمد رک گئی۔

اسی طرح کینجھر سے ہالیجی جھیل تک پانی کی فراہمی بھی بالکل کم ہوگئی اور وہ ایک جوہڑ کی شکل اختیار کردی گئی۔ پانی کا معیار کم ہوتا گیا، خود رو پودے اگنے لگے اور یوں جھیل کی حالت بگڑتی چلی گئ۔

واضح رہے کہ ہالیجی کو ایک قدرتی تحفظ گاہ ( سینکچووری) کا درجہ حاصل ہے اسے رامسر کنونشن کے تحت رامسر کا درجہ حاصل ہے جو کسی بھی جھیل کیلئے اہمیت کا سب سے بڑا درجہ ہوتا ہے ۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے ماحولیاتی اور فطری علاقوں کےبچاؤ کے ماہرین کا خیال ہے کہا ہے کہ دونوں گندے نالے آربی او ڈی اور ایل بی اوڈی دونوں نے ہی سندھ کی کئی جھیلوں کو تباہ کیا ہے۔ بدین میں کئی جھیلیں خشک ہوگئیں اور کئی اب بھی خطرے میں ہیں۔

' گندے نالے سے رسنے والا پانی جھیل کیلئے مستقل خطرہ بنا ہوا ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ یہ جھیل کئی اداروں کے ذمے داروں کے سامنے دم توڑ رہی ہے لیکن یہ ادارے مجرمانہ انداز میں خاموش ہیں،' ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر پاکستان کے ایک کنسلٹنٹ جہانگیر درانی نے کہا۔

جھیل میں گزشتہ پندرہ سے بیس سال میں تازہ پانی کی آمد رکی ہے اور یہ اب یہ آلودہ پانی کا تالاب بن چکی ہے۔

' ایک زمانے میں یہاں دو لاکھ تک پرندے آتے تھے جو اب گھٹتے گھٹتے چند سو رہ گئے ہیں،' انہوں نے بتایا۔

ہالیجی پر سائبیریا سے نقل مکانی کرنے والے پرندوں کی بڑی تعداد آیا کرتی تھی لیکن اب یہاں ڈھونڈنے سے بھی صرف مقامی پرندے ہی ملتے ہیں۔

ان پرندوں میں کنگ فشر، چہکنے والے پرندے ( چیٹ)، گرے شرائک، ایک طرح کا کوا (سندھی میں گگھ پکھی)، ایک طرح کی چڑیا( جنگل بیبلر) ، یورپی کوا ( میگپائی)، اور دیگر پرندے شامل ہیں۔

شہریوں کیلئے پرندوں کی چہچہاہٹ سننا اور انہیں دیکھنا ایک پر لطف تجربہ ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے جھیل پر بنائے گئے بیٹھنے اور نظارہ کرنے کی جگہوں ( ایسی چھ جگہیں نوٹ کی گئیں ) کئ برس سے مرمت سے نہیں گزریں۔

لوگ یہاں رہتے ہیں، مچھلیاں پکڑتے ہیں اور جانور بھی چراتے ہیں۔ یہاں نہ صرف پرندے غائب ہیں بلکہ درخت بھی غائب دیکھے گئے ہیں۔ کئ جگہوں پر آگ لگانے کے آثار بھی ہیں۔

یہاں آنے والوں کیلئے حیرت کا ایک اور امر یہ ہے کہ جھیل میں پانی موجود نہیں لیکن جگہ جگہ مچھلیوں کے تالاب بن رہے ہیں جب کہ یہ ایک قدرتی تحفظ گاہ ہے۔ جھیل پر موجود وائلڈ لائف کا عملہ آپ کو اس کی مختلف وضاحتیں کرے گا لیکن مطمیئن نہیں کرسکے گا۔

' یہاں موجود زرعی زمین بااثر لوگوں کی ہے اور ہم ان کو روک نہیں سکتے۔ چھ کلومیٹر طویل جھیل کی نگرانی کیلئے صرف چار چوکیدار ہیں اور دوسری جانب فنڈز کی کمی بھی ہے، محکمہ جنگلی حیات کے ایک اہلکار نے بتایا۔