'مشرف راولپنڈی کے کنٹرول میں ہیں'
اسلام آباد: سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے جمعرات کو اچانک آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی جانے پر ان کے وکلاء بھی سرپرائز ہو گئے تھے۔
ایک خصوصی عدالت میں مشرف کے خلاف غداری کے الزامات کا دفاع کرنے والی قانونی ماہرین کی ٹیم کے سینیئر رکن نے ڈان سے گفتگو میں کہا کہ 'جنرل مشرف کے اچانک رخ تبدیل کر کے ہسپتال جانے پر قوم کے ساتھ ساتھ ہماری قانونی ٹیم کو بھی دھچکا لگا تھا'۔
حتیٰ کہ سابق صدر کی دفاعی لیگل ٹیم کے سینیئر ترین وکیل شریف الدین پیرزادہ کو جب سماعت کے دوران بتایا گیا کہ مشرف کو سینے میں درد کی وجہ سے اچانک اے ایف آئی سی راولپنڈی منتقل کر دیا گیا ہے تو وہ بہت مایوس ہوئے۔
اس موقع پر پیرزادہ نے جنرل مشرف کو دل کی تکلیف کا سامنے کرنے پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا ' اگر کسی نے سابق صدر کو خصوصی عدالت میں پیش ہونے سے بچانے کے لیے یہ کہانی گھڑی ہے تو اس نے مشرف کے ساتھ خیر خواہی نہیں کی'۔
'اس کا مطلب ہے کہ وہ اب بھی راولپنڈی کے کنٹرول میں ہیں'۔
پیرزادہ کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں مشرف اپنے وکلاء کے بجائے مسلح افواج کے ارکان پر مشتمل مشیروں کی زیادہ سنتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مشرف کے ہسپتال داخلے کے بعد سے ان کا وکلاء سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔پیرزادہ کے مطابق انہوں نے جمعرات کو سماعت سے پہلے جنرل مشرف کو قائل کیا تھا کہ وہ تین رکنی ججوں کی خصوصی عدالت میں پیش ہوں۔
حالانکہ اس سے پہلے وکلاء نے ہی ایک حکمت عملی کے تحت مشرف کو چوبیس دسمبر اور پہلی جنوری کو خصوصی عدالت میں پیش ہونے سے منع کیا تھا اور عدالت کی جانب سے سخت رویہ نہ اپنانے کی صورت میں اسی حکمت عملی کو جاری رکھے جانے کا منصوبہ تھا۔
استغاثہ ٹیم کے سربراہ ایڈوکیٹ اکرم شیخ بھی مشرف کے وکلا سے متفق نظر آئے، جب انہوں نے دعویٰ کیا کہ مشرف کا اے ایف آئی سی میں داخل ہونے کا فیصلہ اچانک نہیں تھا۔
انہوں نے ڈان کو بتایا 'بظاہر یہ ایک منصوبے کے تحت ہوا کیونکہ رینجرز اور ایلیٹ فورس کے جوان پہلے سے ہی ہسپتال کے قریب تعینات تھے'۔
'بہرحال، چھ جنوری کو خصوصی عدالت کی کارروائی دوبارہ شروع ہونے پر استغاثہ ٹیم مشرف کی طبی رپورٹ کا جائزہ لے گی'۔
شیخ کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی راز داری کی بات نہیں کہ مشرف کو عدالت میں حاضری سے بچایا گیا۔
ان کا دعویٰ تھا کہ مشرف کا یہ اقدام ان کے خلاف تین نومبر،2007 کو آئین کی خلاف ورزی کی فرد جرم کا حصہ بن سکتا ہے۔
شیخ کے مطابق' مشرف کے خلاف فرد جرم نہ چاہنے والے ہی ان کی عدالت میں پیشی کے خلاف ہیں'۔
ہفتہ کو ٹی وی چینلز نے ایڈوکیٹ اکرم شیخ کے حوالے سے بتایا تھا کہ ان کے اہل خانہ کو مبینہ طور پر خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے دھمکایا جا رہا ہے۔
ادھر، سپریم کورٹ کے ایک وکیل نے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ شریف الدین پیرزادہ کسی طاقت کے اہم مرکز کے کہنے پر ہی مشرف کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پیرزادہ پیشہ ورانہ مہارت کے حامل قابل وکیل ہیں اور ان کا شمار مشرف کے ان خاص دوستوں میں ہوتا ہے جنہوں نے مشکل وقتوں میں سابق صدر کا ساتھ دیا۔خیال رہے کہ پیرزادہ کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ ہر فوجی بغاوت کے بعد جاری ہونے والے عبوری آئینی حکم کے خالق رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے اس وکیل کا مزید کہنا تھا کہ انہیں جنرل مشرف کی قانونی ٹیم میں انور منصور کی شمولیت پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ منصور کے والد شریف الدین کے قریبی دوست تھے اور اسی وجہ سے منصور کو شریف الدین کی درخواست پر مشرف کی قانونی ٹیم کا حصہ بنایا گیا۔
یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوئس عدالتوں میں مقدمات دوبارہ کھولنے کے معاملے پر منصور کے سابق وزیر قانون بابر اعوان کے ساتھ اختلافات پیدا ہو گئے تھے جس کے بعد انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف سخت موقف اپناتے ہوئے دو اپریل،2010 کو استعفی دے دیا تھا۔