مشرف کے تین نومبر کے اقدامات کا فیصلہ عدلیہ کرے گی، نواز
اسلام آباد: وزیرِ اعظم پاکستان، محمد نواز شریف نے کہا ہےکہ تین نومبر کے کیس کے حقیقی درخواست گزار ریاست اور آئین ہیں۔
ملک کے سابق صدر اور فوجی سربراہ ، پرویز مشرف کو اس وقت خصوصی عدالت میں نومبر دوہزارسات میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے اور اعلیٰ عدلیہ کو ہٹانے پر آئینِ پاکستان کیخلاف غداری کے مقدمے کا سامنا ہے۔
سابق آرمی چیف 70 سالہ پرویز مشرف ملکی تاریخ کے پہلے فوجی آمر ہیں جن پر کوئی مقدمہ چلایا گیا ہے۔ ان کے وکیل کا اصرار ہے کہ ان پر غداری کے مقدمے کی اصل وجہ سیاسی ہے۔
ہفتے کے روز ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتےہوئے نواز شریف نے کہا کہ اب یہ عدالت پر منحصر ہے کہ وہ اس کا فیصلہ کرے کہ آیا سابق فوجی آمر کے اقدام آئین اور ریاست سے ماورا تھے یا نہیں۔
وزیرِ اعظم کا مؤقف تھا کہ کورٹ تین نومبر کو کئے گئے اقدامات آرٹیکل چھ کے مکمل احاطے میں آتے ہیں یا نہیں۔
' چونکہ یہ معاملہ عدالت میں ہے ، تو میری جانب سے کسی بھی قسم کا تبصرہ درست نہ ہوگا۔ کیس کی میرٹ سے ہٹ کر میں یہ کہوں گا کہ مقدمے کے اصل مدعی آئینِ پاکستان اور ریاستِ پاکستان ہیں۔' نواز شریف نے کہا۔
نواز شریف نے کہا کہ یہ کوئی انفرادی معاملہ نہیں۔ تاریخ کے اس اہم موڑ پر ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ' ہم ایک مہذب جمہوری ریاست ہیں جس کا اپنا ایک آئین، قانون اور عدالتی نظام ہے،' وزیرِ اعظم نے کہا۔
' اگر ہر شہری قانون کی نظر میں برابر ہے ، تو وہ ( مشرف) عدلیہ کو جوابدہ ہیں۔ یہ کورٹ کا کام ہے کہ وہ طے کرے کہ وہ قصوروار ہیں یا بے گناہ،' انہوں نے کہا۔
سفری پابندی میں فوری نرمی کا امکان نہیں
ہفتے کو ہی وفاقی وزارتِ داخلہ نے ان افواہوں کی تردید کی کہ فوج کے سابق طاقتور ترین فرد کیخلاف سفری پابندیاں ختم کی جارہی ہیں۔
واضح رہے مشرف کو اس ہفتے کورٹ جاتے ہوئے راستے میں دل کی تکلیف ہوئی تھی۔
اس کے بعد مشرف کو جمعرات کو ایک فوجی ہسپتال لے جایا گیا جہاں انہیں داخل کرلیا گیا۔
سابق آرمی چیف نے ہفتے کو تیسرا دن، راولپنڈی میں واقع فوجی ہسپتال برائے امراضِ قلب میں گزارا۔
ان کے وکیل احمد رضا قصوری کے مطابق اس وقت وہ انتہائی نگہداشت کے شعبے میں ہیں اور ڈاکٹروں کی ایک ٹیم ان کی دیکھ بھال کررہی ہے۔
دوسری جانب خود میڈیا اور بعض حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ انہیں دل کے عارضے کی وجہ سے بیرونِ ملک بھیجا جاسکتا ہے۔
لیکن مشرف کا نام باضابطہ طور پر ' ایگزٹ کنٹرول لسٹ' ( ای سی ایل) میں شامل ہے اور وہ اب بیرونِ ملک سفر نہیں کرسکتے۔ سندھ میں ایک کورٹ نے گزشتہ ماہ ای سی ایل میں نرمی پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔
' اس وقت انہیں بیرونِ ملک سفر کی اجازت دینے کا کوئی ارادہ نہیں،' وفاقی وزارتِ داخلہ کے ایک سینیئر آفیشل نے اے ایف پی نیوز ایجنسی کو بتایا۔
انہوں نے ان خبروں کی بھی تردید کی مشرف کی بیوی صہبا مشرف نے وزارت میں یہ پابندی اٹھانے کیلئے کوئی درخواست جمع کرائی ہے۔
' بیگم صہبا کی جانب سے پرویز مشرف کے بیرونِ ملک سفر سے پابندی ہٹانے کیلئے کوئی تازہ درخواست جمع نہیں کرائی گئی ہے۔ انہیں فوری طور پر سفر کی اجازت نہیں دی جائے گی،' آفیشلز نے بتایا۔
مشرف کے وکیل قصوری کے مطابق کہ ان کی میڈیکل رپورٹس برطانیہ کے ڈاکٹروں کو بھجوائی گئی ہیں۔ وہاں سے جواب آنے کے بعد ان کے مزید علاج کا فیصلہ کیا جائے گا۔
کئی ماہ سے پاکستان میں یہ قیاس آرائیاں زیرِ گردش ہیں کہ مشرف کو قانونی کارروائی کے کسی مراحل میں ہی ملک سے باہر بھجوادیا جائے گا تاکہ عدلیہ اور طاقتور فوج کے درمیان کسی ممکنہ تصادم سے بچا جاسکے ۔
دوسری جانب حکومتی وزرا یہ کہتے رہے کہ وہ سفری پابندیاں نہیں اُٹھائیں گے۔
تازہ ٹی وی رپورٹس کے مطابق پرویز مشرف کی تفصیلی میڈیکل رپورٹس ہفتے کی شام تک متوقع ہیں۔ اس کے بعد ہی یہ فیصلہ ہوسکے گا کہ انہیں پیر کے روز عدالت میں پیش کیا جائے یا نہیں۔
اس سے قبل جمعرات کو کورٹ نے انہیں ایک دن کیلئے عدالت میں پیش ہونے سے استثنیٰ دیا تھا۔