پاکستان

نئے نیوکلیئر پلانٹس کے لیے مظفر گڑھ اور احمد پور شرقیہ منتخب

دونوں مقامات پر گیارہ گیارہ سو میگاواٹ کے جوہری توانائی سے بجلی پیدا کرنے والے یونٹ لگائے جائیں گے۔

چشمہ: پاکستان ایٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر انصار پرویز کے مطابق مظفر گڑھ اور احمدپور شرقیہ کو کے مقامات کو نئے جوہری توانائی کے پلانٹس کی تنصیب کے لیے منتخب کرلیا گیا ہے۔

وہ جمعرات دو جنوری کو چشمہ نیوکلیئر پاور کمپلیکس پر تین سوچالیس میگاواٹ کے چوتھے یونٹ (جسے چشمہ فور کے نام سے جانا جاتا ہے) کی گنبد رکھنے کی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس یونٹ کا تعمیراتی کام مکمل ہوگیا ہے، اور اب اس کے بعد ایک ری ایکٹر کی تنصیب کی جائے گی۔

پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی جانب سے ان نئے پلانٹس کی تنصیب کے لیے حکومت کو تین مقامات کی تجویز دی گئی تھی، سینٹرل ڈیویلپمنٹ ورکنگ پارٹی جو ترقیاتی منصوبوں کی تصدیق کے لیے ایک تیکنیکی فورم ہے، نے مظفرگڑھ اور احمدپورشرقیہ کے علاقوں کو اس کام کے لیے منظور کرلیا ہے۔

چیئرمین پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے کہا کہ مظفرگڑھ اور احمدپورشرقیہ میں زمین کے حصول کے لیے پی سی ون جلد ہی ایکنک (قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی) کے سامنے پیش کردی جائے گی، جو اعلٰی سطح کی پالیسی سازی اور منصوبوں کی منظوری کا ادارہ ہے۔

دونوں مقامات پر گیارہ گیارہ سو میگاواٹ کے جوہری توانائی سے بجلی پیدا کرنے والے یونٹ لگائے جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ ”جوہری توانائی کو مستحکم اور محفوظ بنیادوں پر لیا گیا ہے، اور یہ ملک کو توانائی کے بحران سے نکلنے میں مدد دے گی۔“

چشمہ فور جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اپنے شیڈیول سے چار مہینے آگے بڑھ گیا ہے، اسی استعداد کے ایک اور یونٹ چشمہ تھری کے ساتھ 2016ء میں کام کرنے لگ جائے گا، جس کی تنصیب بھی اسی مقام پر کی جارہی ہے۔

چشمہ تھری اور چشمہ فور تین سو چالیس میگاواٹ کے پلانٹس کے آخری یونٹ ہیں، جن کی تنصیب کے بعد ملک اب بڑے پیمانے کے یونٹس کی جانب بڑھ رہا ہے۔

گیارہ سو میگاواٹ کے پہلے دو یونٹ کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کراچی میں نومبر کے دوران ہوئی تھی۔

اس سے پہلے کراچی میں ایک سو پچیس میگاواٹ کا پلانٹ کینپ ون کراچی میں 1972ء کے دوران قائم کیا گیا تھا، توقع ہے کہ 2019-2020ء تک مرحلہ وار پہلا گیارہ سو میگاواٹ کا یونٹ کام کرنے لگ جائے گا۔

حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جارحانہ طریقے سے جوہری توانائی کے آپشن کو استعمال کرے گی۔ اس کا ارادہ ہے کہ اگلے دس سالوں کے دوران گیارہ گیارہ سو میگاواٹ کے سات پلانٹس کی تنصیب کے ذریعے 2030ء تک آٹھ ہزار آٹھ سو میگاواٹ کے ہدف کو حاصل کیا جائے۔

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اور اصلاحات احسن اقبال، جو اس تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے، نے کہا کہ جوہری توانائی پر ملکی انحصار میں اضافہ کیا جائے گا۔ انہوں نے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے دنیا پر زور دیا کہ وہ پاکستان کو اس کی صلاحیت کے حصول میں مدد دے۔

احسن اقبال نے کہا کہ ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے پاکستان جوہری توانائی کے پلانٹس کے محفوظ استعمال کی ایک تاریخ رکھتا ہے اور پاکستان کا حق ہے کہ وہ سولین مقاصد کے لیے جوہری توانائی کا استعمال کرے۔

جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے این ٹی پی کا رکن نہ ہونے کی وجہ سے جوہری توانائی کی فراہمی کے گروپ این ایس جی کی جانب سے پاکستان پر سولین مقاصد کے لیے بھی نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حصول پر پابندی عائد ہے۔

اسلام آباد سمجھتا ہے کہ یہ طریقہ کار ایک امتیازی رویہ ہے، اس لیے کہ ہندوستان بھی این ٹی پی کا رکن نہیں ہے، لیکن اس کو این ایس جی کی جانب سے چھوٹ حاصل ہے۔

تاہم چین نے بین الاقوامی دباؤ کو مسترد کردیا اور جوہری توانائی کے لیے پاکستان کی جدوجہد کی حمایت جاری رکھی۔

وزیراعظم نواز شریف نے ایک دن پہلے ہی کہا تھا کہ پاکستان اور چین نے سولین مقاصد کے تحت جوہری توانائی کے منصوبوں کے لیے چھ اعشاریہ پانچ ارب ڈالرز کے قرضے پر دستخط کردیے ہیں۔

چینی وفد کے سربراہ لی جی زی جو چین کے قومی جوہری تعاون کے ادارے کے سینیئر ایگزیکٹیو ہیں، نے اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سولین مقاصد کے لیے جوہری توانائی پر پاک چین تعاون دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹیجک تعلقات کو مضبوط بنائے گا۔