پاکستان

موبائل فون سروس کی معطلی۔ عوام کے لیے سزا

دہشت گردی کو روکنے کے لیے موبائل فون سروس کی معطلی کا بوجھ عوام کو اٹھانا پڑتا ہے، جبکہ دہشت گردی جاری ہے۔

اس الجھن اور سراسیمگی کا پہلی مرتبہ لوگوں کو اس وقت سامنا کرنا پڑا جب کہ ایک سال پہلے عید کے موقع پر موبائل فون کے صارفین نے اس کی سروس کو ناقابلِ توجیہہ طور پر معطل پایا، بعد میں وزارت داخلہ نے دہشت گردی کے خطرات کا حوالہ دے کر اس کی سفارش کو معمول بنالیا۔

لیکن اب غم و غصے کی یہ سطح نیچے گر چکی ہے، باوجودیکہ اس ملک میں بارہ کروڑ نوّے لاکھ موبائل فون صارفین اور پانچ نیٹ ورک آپریٹرز موجود ہیں، وہ سب اس پر راضی برضا نظر آتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اس حکمت عملی کو بڑے پیمانے کے ساتھ امام حسین ؓ کے چہلم کے موقع پر استعمال کیا گیا تھا۔

سابق وزیرِ داخلہ رحمان ملک نیٹ ورک کی معطلی کی افادیت کے بارے میں اپنے یقین کو بار بار دہرایا کرتے ہیں۔ پچیس دسمبر کو انہوں نے اپنے ٹوئیٹ میں لکھا تھا کہ ”وزیر داخلہ کا موبائل فون بند کرنے کا فیصلہ درست ہے، اس سے بہت سی زندگیاں محفوظ ہوجائیں گی۔“ چوہدری نثار علی خان جو اس وقت اس عہدے پر فائز ہیں، انہوں نے اس حکمت عملی کا سہارا لینے میں شرم محسوس نہیں کی۔

دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر آپس میں رابطے کے لیے موبائل فون کا استعمال کرتے ہیں، اور دیسی ساختہ دھماکہ خیز ڈیوائس کو اُڑانے کے لیے بھی موبائل فون کی کال کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کی سرگرمیوں کو روکنا ضروری ہے۔ لیکن اس کے برخلاف یہ حکمت عملی شہریوں کو بہت بڑے تکلیف اور بھاری نقصان سے دوچار کردیتی ہے۔

مواصلات کے اس ذریعے کو بند کردینے سے ہجوم کے اشتعال یا دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو روکا جاسکتا ہے یا ان کے اثرات کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔

اس کے باوجود تشدد کے بہت سے واقعات اس حکمت عملی پر سوالات کھڑے کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال اکیس ستمبر کو ملک بھر میں ایک نفرت آمیز فلم کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا، اور پندرہ شہروں میں موبائل فون نیٹ ورک معطل تھے۔ اس کے باوجود بڑے پیمانے پر تشدد اور توڑ پھوڑ کے واقعات کو روکا نہیں جاسکا۔

کراچی پولیس کے سربراہ ایڈیشنل انسپکٹر شاہد حیات کا کہنا ہے کہ ”لوگوں نے اس کے متبادل کا استعمال شروع کردیا ہے، جیسے کہ وائبر، ٹینگو، وہاٹس اپ وغیرہ۔ سیل فون کو بند کرنے کا بنیادی مقصد ریمورٹ آپریٹڈ دھماکہ خیز ڈیواسز کے استعمال کو روکنا ہے۔“

اگرچہ اس بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ اس طریقے سے کس قدر حملوں کو روکا جاسکا ہے۔ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس شاہد حیات کہتے ہیں کہ ایسے کچھ کیسز میں لوگوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کی تخریبی کارروائیوں کے لیے مناسب ماحول موجود نہیں رہا۔

اتفاق سے ایک ہی کیس ایسا ہے جس میں ایک ڈیوائس کے ذریعے موبائل فون کے سگنلز میں رکاوٹ ڈال کر دسمبر 2003ء میں پرویز مشرف کے قافلے پر راولپنڈی میں حملے کو روکا گیا تھا۔

اگر موبائل فون کے سگنلز جام کرنے والی ڈیوائسز مؤثر ہیں تو پھر کیا ضرورت ہے کہ پورے شہر میں نیٹ ورک کو شٹ ڈاؤن کیا جائے؟ کراچی پولیس کے سربراہ کہتے ہیں کہ یہ جامرز استعمال کیے جارہے ہیں، اور وہ مؤثر بھی ہیں، لیکن ان کا دائرہ کار بہت محدود ہے۔ ایک کلومیٹر طویل جلوس جو منتشر حالت میں ہو اس کا جامرز کے ذریعے احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔

چوبیس دسمبر کو نیٹ ورک کی معطلی کے باوجود اورنگی ٹاؤن میں ایک امام بارگاہ کے باہر ایک بم دھماکہ ہوا تھا، جس میں چار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس شاہد حیات کہتے ہیں کہ ”اس سے کہیں زیادہ مؤثر حل دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔“

اس کے برخلاف جب اس بات پر غور کیا جائے کہ لوگوں کو اس کی کیا قیمت ادا کرنی پڑتی ہے تویہ بات سامنے آئے گی کہ ناصرف انہیں اپنے دوستوں اور خاندان کے افراد سے رابطے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ وہ پولیس یا ایمبولنس کو بھی کال نہیں کرسکتے، کاروباری اداروں اور آمدنی الگ متاثر ہورہے ہیں۔

مثال کے طور پر محمد شاہد جو کراچی میں الیکٹریشن کا کام کرتے ہیں، ان کی آمدنی اٹھارہ سے بیس ہزار ماہانہ کے لگ بھگ ہے۔ ان کی دکان پر لینڈلائن فون نہیں ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ جس دن موبائل فون نیٹ ورک معطل ہو، تو ان کا نوّے فیصد کام نہیں رُک جاتا ہے۔

مضمون نگار نے کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے مختلف لوگوں سے بات کی، اور سب ہی نہیں ایک ہی طرح کی کہانی بیان کی۔

ٹیلی کام انڈسٹری کا کہنا ہے کہ ایک دن کے شٹ ڈاؤن کا مطلب یہ ہے کہ اس دوران ایک ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ ٹیلی نار پاکستان کی ڈائریکٹر برائے کارپوریٹ کمیونیکیشن عاطفہ اصغر کہتی ہیں کہ ”موبائل فون سروس کی معطلی ٹیلی کام ایکٹ کی دفعات کی قانونی خلاف ورزی ہے اور اس کے علاوہ لائسنس کے معاہدے کے بھی خلاف ہے۔“انہوں تسلیم کیا کہ ”کمپنی کو سیکیورٹی صورتحال کا بخوبی احساس ہے۔“انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت کو ہرممکن مدد کی فراہمی میں توسیع کردی گئی ہے۔ ”نیٹ ورک کی معطلی آخری حربہ ہونا چاہیٔے۔ بعض مقامات پر سیکیورٹی کے انتہائی خطرے کی صورت میں، جہاں ضرورت ہو اور انتہائی ناگزیر صورتحال ہو تو موبائل فون سروسز کو صرف مخصوص انتہائی خطرناک مقامات پر معطل کرنا چاہیٔے، بجائے اس کے کہ بڑے پیمانے پر شٹ ڈاؤن کردیا جائے۔“

اگرچہ بہت سے لوگوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے آسان راستے کو اختیار کرلیا ہے۔ جرائم پیشہ عناصر، تشدد پسندو ں اور دہشت گردوں کو وقت ملا ہے اور انہوں نے دوبارہ اپنی صلاحیت کو ٹیکنالوجی کے ذریعے بہتر بنالیا ہے۔ ریاست کو ان عرضداشتوں پر غور کرنا چاہیٔے۔ یہ حکمت عملی سیکیورٹی کے نام پر خطرناک سمت میں لوگوں کی آزادی کو معطل کردیتی ہے۔