پاکستانی سنیما: ایک نئی لہر

گزشتہ سال پاکستان میں غیرمعمولی طور پر ذیادہ فلمیں بنائی گئیں لیکن ان کیلئے مضبوط اسکرپٹ اب بھی ضروری ہے۔

ایک شیطانی بچےکے زیر اثر ایک نوجوان عورت (یا شاید یہ اس عورت کا وہم تھا)، ایک ناراض نیوز مین نوجوانوں کے ساتھ سیاسی انقلاب لاتا ہے، علاقائی ناانصافی کے خلاف بر سرپیکار ایک بے حجاب عورت، ایک نوآموز ڈسٹرکٹ کرکٹ ٹیم کو چیمپئن بنانے والا ایک سابقہ مایوس کرکٹر، زندگی کے چکر سے نکلنے کے لئے پریشان نوجوان کا گروہ، اور ایک شخص جو دیکھنے میں بڑی سکرین کے دیگر اینٹی- ٹیررسٹ ہیرو کی طرح ہے، اور پاکستان کے ملکی اور غیر ملکی دشمنوں کے خلاف آخری امید ہے: یہ سب مل کر پاکستانی سنیما کے لئے سنہ دو ہزار تیرہ کو ایک منفرد سال بناتے ہیں-

سال کے آغاز سے پہلے پاکستانی سنیما میں کسی قسم کی ہلچل دیکھنے میں نہیں آئی- لیکن جیسے سال آگے بڑھتا گیا، محتاط ریلیزوں کی شکل میں پیشرفت سامنے آتی گئی، یہ اور بات ہے کہ ان میں زیادہ تر، قابلیت کی چمک دمک، باکس آفس پر ملے جلے رجحان اور اعدادوشمار کے باوجود فلاپ رہیں- لیکن یہ ایک خوش آئند سال بھی تھا- کیونکہ سنیما کی بحالی کے لئے اردو زبان میں مختلف موضوعات پر مبنی فلمیں، سنیما گھروں کی زینت بنیں-

سامعین کے ردعمل کا دارومدار بھرپور طریقے سے فلم کی مارکیٹنگ پر تھا- سرمایہ کاروں نے اس کا نوٹس لیا- نئی فلموں کے پلان بناۓ گۓ اور جو تیار تھیں انکی ریلیز کے لئے نئی حکمت عملی تیار کی گئی- وہ جوش خروش تھا یا شاید لائم لائٹ کی خواہش جس نے نۓ پروڈیوسرز کو پاکستانی موشن پکچر مارکیٹ میں طبع آزمائی کرنے پر اکسایا (اب یہ حال ہے کہ انٹرٹینمنٹ فیلڈ سے وابستہ ہر شخص فلم بنانا چاہتا ہے کیوں کہ ٹیلی ویژن پر بہت زیادہ بھیڑ جمع ہے یا اس پر دوسروں کی اجاراداری ہے)- ظاہر ہے ایک پاکستانی مووی بنانے کا یہ بہترین وقت ہے کیوں کہ لوگ ہمیشہ انہیں یاد رکھتے ہیں جو نئی تبدیلی میں پیش پیش رہے ہوں-

جب سال شروع ہوا تو ڈسٹربیوشن سے وابستہ میرے ایک دوست نے مجھ سے رابطہ کیا اور بتایا کہ ایک ہارر فلم آنے والی ہے- مجھے پہلے تو ایک پاکستانی مین سٹریم مووی کے خیال پر شک ہوا جس کے بارے میں، میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا (کیونکہ اس کی تشہیر نہیں کی گئی تھی)، عمران رضا کاظمی ایک نرم خو مگر پرجوش فرسٹ ٹائم پروڈیوسر نے مجھے ایک جانی پہچانی کہانی سنائی: اس نے اپنے رسک پر یہ مووی بنائی تھی اور اب اسے ریلیز کرنے کے لئے کوششیں کر رہا تھا-

سیاہ، آخرکار ریلیز ہو گئی، جس کے پاس پاکستان بھر کے ڈسٹریبیوٹر سپورٹ کی کمی تھی اور اسے ہلکا پھلکا رسپانس ملا(اس ایک وجہ یہ تھی کہ 'سیاہ' کو ڈیجیٹلی بنایا گیا تھا جس سے اس کی ریلیز ملٹی پلیکسز اور ڈیجیٹل پروجیکٹر والے سنیما گھروں تک محدود ہو گئی تھی)- یہ مارچ کی بات ہے، آخر کار کاظمی صاحب مووی کو پرائیویٹ اسکریننگ اور یونیورسٹیز میں لے گۓ اور کافی پیسے کماۓ یا یا ان کے کہنے کے مطابق (کاظمی صاحب کے مطابق، سیاہ نے 11,691,476 روپے کماۓ) –

اگلے ماہ عبدللہ کادوانی اور شہزاد نواز کی 'چمبیلی' ، الیکشن کے زمانے میں ریلیز ہوئی- یہ ایک طاقتور سینیما تجربہ تھا، اس کے بہترین ٹائمنگ اور حوصلہ افزا باکس آفس ریٹرن کے باوجود یہ فلم مالیاتی طور پر ناکام رہی-

اگست کے مہینے میں ڈائریکٹر شہزاد رفیق کی پنجابی فلم 'عشق خدا' ریلیز ہوئی- 35 ایم ایم پر فلمائی گئی یہ فلم، پروڈکشن کے لحاظ سے معیاری تھی لیکن یہ درست سامعین تک نہیں پنہچ سکی- اور یہ اس فلم کی ناکامی کی بڑی وجہ تھی-

چناۓ ایکسپریس :عشق خدا کی مالیاتی ناکامی کے باوجود اگست پاکستانی سنیما کے لئے ایک اھم مہینہ رہا، اے آر وائی ڈیجیٹل اور مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ (ایٹریم سنیماز) کے درمیان اشتراک ہوا- دو بڑے برانڈ ملے اور ایک نئی تشکیل ہوئی- چھوٹے بجٹ کی موشن پکچرز کے لئے پلیٹ فارم تیار کیا گیا، ساتھ ہی اے آر وائی فلمز بھی انڈسٹری میں داخل ہو گئی- (چند ہفتے پیشتر ہی اے آر وائی نے، شان شاہد، کے ساتھ ایک ایک اسٹریٹجک اتحاد بنایا تھا۔

'جوش' (اسی پلیٹ فارم کے ذریعہ) اور (مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ اور اے آر وائی فلمز کی ) 'میں ہوں شاہد آفریدی ' ریلیز ہوئی- پہلی دنیا بھر میں ریلیز ہونے والی ایک آزاد خیال سماجی پیغام پر مبنی پروڈکشن، دوسری ایک بڑی پروڈکشن کی مایوس کن پلاٹ والی بڑی فلم- میری معلومات کے مطابق دونوں ہی متاثر کن ادادوشمار کے باوجود ناکام رہیں-

ایک ماہ بعد، 'زندہ بھاگ' ریلیز ہوئی- جس کی وسیح تر ریلیز کے لئے اسٹریٹجک شراکت داروں اور ریلیز ڈیٹ میں رد و بدل کی گئی، اس فلم کو آسکر میں پاکستانی شمولیت کے لئے منتخب کیا گیا- ایک بار پھر یہ مووی، مالیاتی ناکامی ہوئی-

سیڈ لنگس (لمحہ)، بھی اے آر وائی ڈسٹری بیوٹ کی کاوش تھی۔ اس فلم کی پہلے ہی سے ایک مصروف ہفتے میں محدود نمائش کی گئی- کوئی نہیں جانتا یہ فلم کب آئی اور کب گئی- (یہی حال حسن عسکری کی 'دل پڑے دیس میں، لباس اور کبھی پیار نہ کرنا کے ساتھ ہوا)-

اس کے بعد 'وار' آئی، سطحی طور پر بنائی گئی سپر ایکشن فلم جس نے تاریخ رقم کر دی- اس کی نمائش اب بھی سنیما گھروں میں جاری ہے ، منفی تاثرات کے باوجود یہ پاکستانی سنیما کی تاریخ میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والے فلم رہی ہے- زیادہ تر انٹرنیشنل فلموں کی طرح، فلم نے جوش خروش اور توقعات سے افائدہ اٹھایا- فلم بڑی بنائیں، وکھری ٹریلر تیار کریں، مارکیٹ گیپ ختم کریں-

وار' کی کیمسٹری بلکل سادہ تھی، کچھ قابل دید ایکشن، حالانکہ اس کا پلاٹ کمزور تھا یا کہانی میں ربط کم تھا، پھر بھی ہماری وطن پرستی نے ہمیں ٹکٹ خریدنے پر مجبور کر دیا-

اس نئی لہر میں تین چیزیں قابل غور تھیں: سینمائ قدر، ریلیز ڈیٹ اور مقابلہ، اور اقتصادیات-

سال دو ہزار تیرہ میں ریلیز ہونے والے چھتیس فلموں میں سے، گیارہ اردو زبان میں اور آٹھ مین سٹریم ریلیز تھیں- تمام فلموں نے بڑے بزنس شہروں اور ملٹی پلیکسز میں کیے- حقیقت تو یہ ہے ملٹی پلیکسز اتنے ہی ضروری ہیں جتنی بالی ووڈ کی فلمیں درامد کرنا جو باوجود نفرت کے اظہار کے ہمارے سینما کلچر کو واپس لانے میں معاون ثابت ہوئی ہیں-

فی الحال، کئی ملٹی پلیکس پروجیکٹ تیار کیے جا رہے ہیں، بشمول لاہور میں سنی اسٹار (CineStar ) کے پہلے آئی میکس (IMAX جو سنہ دو ہزار چودہ کے وسط تک متوقع ہے)- ایچ کے سی انٹرٹینمنٹ کے حماد چودھری کے مطابق موجودہ دس سے چودہ ملٹی پلیکس کی تعداد سنہ دو ہزار چودہ تک بڑھ کر پچیس سے تیس تک ہو جاۓ گی-

ایک چیز قابل غور ہے کہ بہترین کمائی کرنے والی تین فلمیں -- 'چمبیلی' ، ' میں ہوں شاہد آفریدی'، اور 'وار ' اپریل، اگست اور اکتوبر جیسے مہینوں میں ریلیز ہوئیں- یہ عموماً گرمیوں/سردیوں کی چھٹیوں کے بعد کا زمانہ ہوتا ہے اس میں بین الاقوامی فلمساز چھوٹی فلمیں بنانے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں-

فلموں کو اپنے بجٹ کا کم ز کم تین گنا سنیما سے حاصل کرنا ہوتا ہے، جس میں حساب کی رو سے: فی ٹکٹ کا پچاس فیصد حصّہ سنیما کے مالک کو جاتا ہے، باقی ڈسٹریبیوٹر کو جاتا ہے جس کا حصّہ، تشہیر کی لاگت (بروکر ڈیل وغیرہ) کے بعد پندرہ فیصد بنتا ہے، اس کے بعد جو کچھ بچتا ہے وہ پروڈیوسر کا منافع ہے-

جیسا کہ کسی بھی انڈسٹری کے ساتھ ہوتا ہے، چاہے وہ نوآموز ہو یا سود مند ، موویز کا انکی جمالیاتی اور تکنیکی بنیادوں پر تعین کیا جانا ضروری ہے-

'میں ہوں شاہد آفریدی' ایک جانے پہچانے پلاٹ کے والی اچھی تفریح تھی،

'چمبیلی' مکمل طور پر شاندار تھی بھلے تھوڑی اکتا دینے والی ہی سہی- سیاہ، مردوں اور پرانی ہارر موویز کی فارمولا مووی تھی- ، جوش ایجنڈا پر مبنی ، پھیکی اور غیر متاثر کن مووی تھی ،عشقِ خدا کھوجی مووی تھی ، زندہ بھاگ اصلی اور جراتمندانہ فلم تھی ، جبکہ 'وار' ایک مردہ فلم تھی -مختلف راۓ، مزید بہتری کی راہ ہموار کرتے ہیں، جو میرے نزدیک ایک فلم ساز کی تجربے اور سیکھنے کا حصّہ ہیں- جیساکہ راۓ موضوعات اور ذوق کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں، میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ فلم سازوں کو فقط اس لئے فلمیں بنانی شروع نہیں کر دینی چاہییں کیوں کہ وہ بنا سکتے ہیں- ہاں، ٹیکنالوجی آج سستی ہے، پروڈکشن پہلے سے زیادہ تیز ہے لیکن میرا تجربہ اس سے مختلف بتاتا ہے- کادوانی صاحب جن سے حال ہی میں ملاقات ہوئی اس نقطہ پر زور دیتے ہیں.

ابھی جبکہ پاکستانی سنیما کافی پرکشش محسوس ہو رہا ہے وہ لوگ جو موویز بنا رہے ہیں انہیں تجارتی غلطیوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے- آگے جا کر بالی ووڈ موویز کے ساتھ مقابلہ سخت ہوگا ( فی الحال پاکستانی پروڈیوسرز کو ہالی ووڈ کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے)- نمائش کے لئے سنیما سکرینز کی ابھی بھی کمی ہے، پروڈکشن کے بجٹ اور شیڈول کا تعین ضروری ہے، ایک پائیدار بحالی کے لئے ہماری نئی لہر کو نوع اور تنوع کے درمیان نازک توازن رکھنا ضروری ہے--- اور سب سے اھم بات نہ بھولیں ، فلمسازوں کو اپنے سکرپٹ پر محنت کرنا ضروری ہے (جو چیز کاغذ پر اچھی نہیں لگے گی اسے لوگ پسند نہیں کریں گے ، اتفاقات کبھی کبھار ہی ہوتے ہیں)-

اگر وہ اپنی مووی صحیح طریقے سے پلان کریں گے، تو تبدیلی یقیناً پائیدار ہوگی-