پاکستان

پاکستان: ڈائریا سے اموات میں پانچواں نمبر

ملک میں ہرسال 125,000 بچے ڈائریا کا شکار ہوکر ہلاک ہوجاتےہیں، زنک اور اوآرایس سے یہ زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔

لاہور: پاکستان میں ہرسال ایک لاکھ سے زائد بچے اپنی پانچویں سالگرہ تک پہنچتے پہنچتے ڈائریا کا شکار ہوکر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ آغا خان یونیورسٹی سے وابستہ بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ کے مطابق جن پانچ ممالک میں ڈائریا سے شکار بچوں کی سب سے ذیادہ اموات ہوتی ہیں ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔

اس سلسلے میں ایک ورکشاپ مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی جہاں بتایا گیا کہ زنک اور او آر ایس سے اس مرض پر قابو پانے پر بات کی گئی ۔ شرکا کو بتایا گیا کہ عالمی سطح پر ڈائریا کے 2.5 ارب کیسز ہرسال ہوتےہیں۔

محکمہ صحت اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے مائیکرو نیوٹرینٹ انیشی ایٹوو ( ایم آئی) کے اشتراک سے یہ سیمینار ہوا جس میں صحت سے وابستہ افراد نے شرکت کی۔

' کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں ڈائریا سے بچے کی ہلاکت نہیں ہوتی اور اگر ایسا ہوجائے تو اس پر انکوائری ہوتی ہے،' ڈاکٹر بھٹہ نے کہا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہرسال ڈائریا سے 125,000 اموات ہوتی ہیں اور اس میں کمی کیلئے کوئی کوشش نہیں کی گئی جبکہ صاف پانی ، گندے پانی کی نکاسی اور صحت و صفائی کی سہولیات پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ۔

انہوں نے کہا کہ نمونیا اور ڈائریا مینجمنٹ کے عالمی منصوبے میں او آر ایس اور زنک کو ڈائریا کے مرض میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کہ ڈائریا کی روک تھام کیلئے او آر ایس کا کردار نمایاں ہے جبکہ پاکستان میں ڈائریا مرض میں اس کے استعمال کی شرح تیس سے چالیس فیصد ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والی 40 اسٹڈیز سے ظاہر ہوا ہے کہ روزانہ دس ملی گرام زنک اور اوآر ایس کے استعمال سے ڈائریا کیسز میں چالیس فیصد تک کمی کی جاسکتی ہے۔

' پاکستان میں ڈائریا مینجمنٹ کیلئے زنک اور او آر ایس کا استعمال لیڈی ہیلتھ ورکرز کے نصاب میں شامل ہے لیکن اس پر صرف پانچ فیصد ہی عمل درآمد ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ضروری ادویات میں زنک کو نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ ساتھ ہی اسے ڈاکٹروں کے نصاب میں شامل کیا جانا چاہیئے۔ اس موقع پر عوامی اور معاشرتی سطح پر بھی شعور بڑھانے کی ضرورت ہے۔

اس موقع پر پنجاب اور آزاد جموں و کشمیر میں ایم آئی پروگرام مینیجر منور حسین نے کہا کہ اس ورکشاپ میں او آر ایس اور زنک کو پاکستان میں رائج کرنے کے طریقوں پر غور ہوا اور ساتھ ہی اسے پالیسی کا حصہ بنانے میں حائل رکاوٹوں پر بھی بات چیت کی گئی ہے۔

ایم آئی سے وابستہ ڈاکٹر خالد نواز نے شرکا کو ایم آئی کی جانب سے مائیکرونیوٹرینٹ اقدامات سے آگاہ کیا ۔ ان میں آیوڈائزڈ نمک، پاؤڈر اور آٹے میں آئرن اور فولک ایسڈ کا استعمال شامل ہے۔ واضح رہے کہ مائیکرونیوٹرینٹ وہ اہم اجزا ہوتے ہیں جو خوراک میں معمولی مقدار میں استعمال ہوتے ہیں لیکن ان کی اہمیت بہت ذیادہ ہوتی ہے ۔ ان میں زنک، آیوڈین اور دیگر اہم وٹامن وغیرہ شامل ہیں۔

شرکا نے ملک میں زنک کو نظر انداز کئے جانے پر تشویش کا اٖظہار بھی کیا۔