پاکستان

”غداری کا مقدمہ انتقامی کارروائی، مجھے فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے“

دفاعی مبصر جنرل طلعت مسعود نے مشرف کے اس خیال کو مبالغہ آمیز قراد دیا کہ ان پر غداری کے الزمات سے پوری فوج پریشان ہے۔
|

اسلام آباد: کل بروز اتوار انتیس دسمبر کو سابق فوجی حکمران پرویز مشرف نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو ”انتقامی“ کارروائی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور کہا کہ انہیں اس مقدمے میں فوج کی حمایت حاصل ہے۔

ستّر برس کے جنرل مشرف نے کہا کہ ”پوری فوج“ غداری کے ان الزامات سے پریشان ہے۔

فوج نے اس مقدمے کے حوالے سے کسی قسم کا براہِ راست عوامی تبصرہ نہیں کیا ہے، لیکن ایسا خیال کیا جارہا ہے کہ وہ ایک سویلین کورٹ میں اپنے سابق چیف کے خلاف مقدمے کے ذریعے توہین سے ناراض ہے۔

جنرل ریٹائرڈ مشرف نے اسلام آباد کے کنارے پر واقع اپنے فارم ہاؤس میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ”میں یہ کہوں گا کہ پوری فوج پریشان ہے۔ میں نے آگے بڑھ کر فوج کی قیادت کی ہے۔“

”جو فیڈ بیک مجھے موصول ہوا ہے، اس حوالے سے مجھے اس بات کوئی شک نہیں ہے کہ پوری فوج مکمل طور پر اس معاملے میں میرے ساتھ ہے۔“

نومبر 2007ء میں ایمرجنسی کا نفاذ کرنے سے متعلق مشرف کے اقدام پر غداری کا الزام عائد کیا گیا ہے، اور اگر انہیں اس کا مرتکب پایا گیا تو انہیں سزائے موت یا عمر قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

ایک خصوصی عدالت کے تحت اس مقدمے کی ایک ابتدائی سماعت چوبیس دسمبر کو ہونی تھی، لیکن جس راستے سے جنرل مشرف عدالت پہنچنا تھا، اس کے ساتھ دھماکہ خیز مواد پائے جانے کے بعد اس کو روک دیا گیا تھا۔

اس واقعہ کی وجہ سے اب اس مقدمے کی سماعت بدھ کو ہوگی، لیکن مشرف کا کہنا ہے کہ انہوں نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ اس میں شریک ہوں گے یا نہیں، انہوں نے کہا کہ ”جس طرح یہ عدالتی ٹریبیونل قائم کیا گیا تھا، اس میں وزیراعظم اور سابق چیف جسٹس اس کی تشکیل میں شریک تھے، جس سے انتقام کی تھوڑی بہت جھلک ظاہر ہوجاتی ہے۔“

سابق صدر نے کہا کہ انہیں ایک منصفانہ طور پر قائم کیے گئے ٹریبیونل یا عدالت کے سامنے اپنا دفاع کرنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا، لیکن انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ اس مقدمے کی سماعت کے لیے خصوصی طور پر تشکیل دیے گئے پینل کے بارے میں پُرامید نہیں ہیں۔

ان کے وکلاء نے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کی جانب سے 1999ء میں جنرل مشرف کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کارروائی کا عدالتوں کے ذریعے حساب برابر کرنے کی ایک کوشش قرار دیتے ہوئے ان الزامات کو مسترد کردیا۔

مبالغہ آمیز اندازہ:

دفاعی تجزیہ نگار طلعت مسعود جو خود بھی ایک ریٹائرڈ جنرل ہیں، جنرل مشرف کے اس دعوے کہ انہیں فوج کی بڑے پیمانے پر حمایت حاصل ہے، پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ عناصر کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہوسکتی ہیں، جبکہ یہ کہنا کہ پوری فوج مشرف کے ساتھ ہے، یہ ایک ”مبالغہ آمیز خیال“ ہے۔

جنرل طلعت مسعود نے اے ایف پی کو بتایا کہ ”جہاں تک اس کارروائی کا تعلق ہے، فوج پہلے اپنا مثبت اشارہ دے چکی ہے۔“

”کچھ لوگ جو اس حقیقت کے ساتھ ہم آہنگی اختیار نہیں کی ہے، وہ بعد میں اس کو قبول کرلیں گے۔ فوج پہلے ہی اس حقیقت کو قبول کرچکی ہے۔“

جنرل مشرف مئی کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پاکستان واپس آئے تھے، لیکن ان کی یہ واپسی ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔

انہیں ان انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا، اور ان پر اپنے عہدِ حکمرانی کے دوران جس کا 2008ء میں خاتمہ ہوگیا تھا، سنگین نوعیت کے مجرمانہ الزامات کا ایک سلسلہ شروع کردیا گیا۔

ان میں 2007ء کو ہوئے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے الزام کے ساتھ ساتھ نواب اکبر بگٹی کی موت، لال مسجد میں موجود دہشت گردوں کے خلاف ایک مہلک کارروائی اور ججز کی نظربندی کے الزامات شامل ہیں۔

انہوں ان تمام مقدمات میں ضمانت دی جاچکی ہے، اور اصولی طور پر وہ ایک آزاد شخص ہیں، لیکن طالبان کی جانب سے انہیں دی جانے والی قتل کی دھمکیوں کی وجہ سے وہ سخت حفاظت میں رہتے ہیں۔

اب تک سوائے اس طرح کی افواہوں کے اور کچھ سامنے نہیں آیا ہے، کہ حکومت اور فوج کے درمیان تصادم سے بچنے کے لیے ایک معاہدہ طے پاجائے گا، جس کے تحت وہ عدالتوں کا سامنا کرنے سے پہلے ہی ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے۔

جنرل طلعت مسعود نے کہا کہ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس معاملے سے سول اور فوج کے تعلقات کی کئی دھارائیں نکلتی ہیں، جس کے ساتھ حکومت یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ کوئی بھی سینئیر آفیسر قانون سے بالاتر نہیں ہے۔

یہ غداری کا مقدمہ جیسے جیسے نزدیک آتا جارہا ہے، جنرل مشرف کی ٹیم نے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنی میڈیا مہم تیز تر کردی ہے۔

گزشتہ ہفتے لندن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ان کے برطانوی وکلاء نے اقوامِ متحدہ پر زور دیا تھا کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کرے، جسے انہوں نے ایک ایسا شو ٹرائل قرار دیا تھا، جس کے لیے اسٹیج تیار کیا گیا تھا، اور انہوں نے واشنگٹن اور لندن سے کہا تھا کہ وہ نائن الیون کے حملوں پر جنرل مشرف کی حمایت کا قرض ادا کریں۔

اے ایف پی:

اسلام آباد: پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے اوپر عائد غداری کے الزام کو 'انتقام' قرار دیا ہے۔

اپریل سے اپنے گھر میں گرفتار سابق صدر نے پہلی مرتبہ اتوار کو عالمی میڈیا سے گفتگو کی۔

مشرف کا دعوی تھا کہ انہیں وطن واپسی پر فوج کی حمایت حاصل تھی۔

ستر سالہ ریٹائرڈ جنرل نے مذید کہا کہ ان پرغداری کے الزامات کی وجہ سے 'پوری فوج' پریشان ہے۔

رواں سال مارچ میں وطن واپسی پر سابق صدر پرویز مشرف کو تین نومبر 2007 کو ماورائے آئین اقدامات، اعلٰی عدلیہ کے ججوں کو نظر بند اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے جیسے سنگین الزامات کا سامنا ہے۔

غداری کیس کی وجہ سے حکومت اور طاقت ور فوج کے درمیان تناؤ کا خدشہ ہے کیونکہ فوج اپنے سابق سربراہ کی سویلین عدالت کے سامنے اس کیس کی کارروائی کی حزیمت نہیں چاہتی۔

انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں ملنے والے ردعمل سے معلوم ہوا ہے کہ پوری فوج اس معاملے میں مکمل طور پر ان کے ساتھ ہے۔

چوبیس دسمبر کو مشرف کے گھر سے کچھ دور سڑک کنارے دھماکہ خیز مواد برآمد ہونے کی وجہ سےاس کیس پر خصوصی عدالت میں ابتدائی سماعت روک دی گئی تھی۔

اب کیس کی سماعت پہلی جنوری کو ہو گی، تاہم مشرف کے مطابق ابھی تک انہوں نے عدالت میں پیشی کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

مشرف نے کہا کہ وزیر اعظم اور سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں خصوصی عدالت کی تشکیل سے اس میں کسی حد تک انتقام کی جھلک نظر آتی ہے۔

مشرف کے وکلاء نے غداری کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت مشرف سے عدالت کے ذریعے 1999 میں نواز شریف حکومت کا تختہ الٹنے کا انتقام لینا چاہتی ہے۔