ٹیلی ویژن شوز اور ریٹنگ
اگر میں یہ کہوں کہ میں نے پاکستانی ٹیلی ویژن پروگرامز دیکھنا چھوڑ دیے ہیں تو شائد میں اکیلی نہیں ہوں کیونکہ میں محسوس کرتی ہوں کہ ان پروگراموں کا معیار بیحد پست ہو چکا ہے-
لیکن جب بھی میں نے ٹی وی کے کرتا دھرتاوں کے سامنے تفریحی اور خبروں کے تعلق سےیہ سوال اٹھایا انھوں نے مجھے یہ کہہ کر خاموش کردیا کہ اس کی وجہ بنیادی طور پر ریٹنگ ہے- ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ یہ پروگرام مقبول ہیں، پاکستانی اسی قسم کے پروگرام ٹیلی ویژن پر دیکھنا چاہتے ہیں-
عموماً جو پروگرام مجھے سخت ناپسند ہیں انھیں کی ریٹنگ سب سے زیادہ ہے- کسی شو کی ریٹنگ جتنی زیادہ ہوتی ہے اسے اتنے ہی زیادہ اشتہار ملتے ہیں، اور اس طرح آمدنی بھی زیادہ ہوتی ہے-
جمعرات کے دن اخباروں میں ایک نسبتاً چھوٹی سی کچھ گڑبڑ قسم کی رہورٹ چھپی: ایک کمپنی نے کسی دوسری کمپنی کے ساتھ مل کر اعلان کیا کہ وہ ملک میں ٹی-وی ناظرین کی زیادہ بڑی تعداد کے اعداد و شمار اکٹھا کریں گی- مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ تیز رفتار میٹر ٹکنولوجی کی مدد سے یہ اندازہ لگایا جائے گا کہ لوگ کیا دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لیئے بلٹ-ان-موڈیم اور جی پی آر ایس ٹکنولوجی استعمال ہوگی-
مجھے یہ جان کر اور زیادہ خوشی ہوئی کہ یہی وہ کمپنی ہے جو قومی ٹیلیویژن کو ریٹنگ کے اعداد و شمار فراہم کرتی ہے- اس کمپنی نے 2007 میں رات بھر کے الیکٹرونک ریٹنگ کے اعداد وشمار فراہم کرنے کی ابتداء کی تھی اور شروع شروع میں صرف تین شہروں کے اعداد و شمار اکٹھا کیئے جاتے تھے جو اب آہستہ آہستہ پچھلے چند برسوں میں نو شہروں تک پھیل گئے ہیں- یہ اعداد و شمار 675 گھروں کا احاطہ کرتے ہیں-
ٹیلی ویژن کے حکام بالا کا کہنا ہے کہ وہ لوگوں کی پسند کا اندازہ لگانے کے لیئے صرف ان 'پیپلز میٹرز' پر انحصار نہیں کرتے- اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاتا ہے کہ عام طور پر لوگ کسی خاص شو کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں (یہ اعداد و شمار اگرچہ کہ مشاہدے کی بنیاد پر ہوتے ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا) اور یہ کہ ان کی وجہ سے کتنے اشتہار مل رہے ہیں (جن کی بڑی اہمیت ہے)
اب ایک بات پر غور کیجئے: چند سال پہلے ایک مقامی زبان میں شائع ہونے والا ایک نیا اخبار پاکستان کی اخبار کی مارکٹ میں اپنی جگہ بنانا چاہتا تھا-
ملک میں بڑی تعداد میں شائع ہونے والے اخبارات چند خاص شہروں سے ہی شائع ہوتے ہیں؛ان اخباروں کے ایڈیشن جو دیہاتوں/دور دراز علاقوں میں بھیجے جاتے ہیں (انھیں ڈاک ایڈیشن کہا جاتا ہے شہروں میں بھیجے جانے والے ایڈیشنوں سے پہلے ہی مکمل کر لئے جاتے ہیں کیونکہ ان کی اشاعت ان علاقوں میں نہیں ہوتی-)
مثلاً، یوں سمجھیے کہ کراچی یا لاہور سے شائع ہونے والے اخبار کا ڈاک ایڈیشن نو یا دس بجے رات تک چھپ جاتا ہے اور وین میں بھر کراندرون سندھ یا پنجاب کے دیہاتوں میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں سے ہاکرز انھیں لے جاتے ہیں: جبکہ وہ اخبارات جو شہروں کے لیئے ہوتے ہیں کافی دیر بعد، تقریباً صبح صبح مکمل ہوتے ہیں- جو علاقہ جتنا زیادہ دور ہوتا ہے (اکثر) قومی اخبار اتنی ہی زیادہ دیر سے وہاں پہنچتے ہیں-
مذکورہ بالا نئے اخبار نے جو اندرون ملک پہنچنا چاہتا تھا ان چکروں سے بچنے کے لیئے ایک حکمت عملی بنائی اور لگ بھگ بارہ مختلف شہروں اور قصبوں سے اپنی اشاعت شروع کی- جس کا مطلب یہ تھا کہ دور دراز ترین گاوں اور دیہاتوں مین بھی تازہ ترین خبریں ملیں گی اور اس کی کاپیاں سیدھے دوکانوں میں صبح سویرے پہنچ جایا کرینگی اور اس کا مقابلہ دوسرے اخباروں سے نہیں ہوگا-
یہ حکمت عملی کارگر ہونی چاہئے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا، کیونکہ اگرچہ اخبار کا سرکیولیشن خاصا بڑھ چکا تھا لیکن اسے اتنے اشتہارات نہیں مل رہے تھے کہ کاروباری لحاظ سے منافع بخش ہوتا- گو کہ اخبار کی کاپیاں زیادہ تعداد میں فروخت ہو رہی تھیں لیکن اشتہاری اداروں کے خیال میں اخبار کے خریداروں کی مارکٹ پر کشش نہیں ہوتی (حالانکہ دیہی-زرعی معیشت میں بہت سی چیزوں کے اشتہار دیئے جاسکتے ہیں ---- خاص طور پر روزگار کے اشتہارات ---- اگر چہ یہ اتنے مہنگے نہیں ہوتے جتنے کہ اسپورٹس کار کے اشتہارات)
تو میرا سوال یہ ہے: اشتہاری اداروں کے افسراں کس مشاہدے کی بنا پر اس بات کا پتا چلاتے ہیں کہ پاکستانی ناظرین میں کونسا پروگرام مقبول ہے؟
ان اداروں کے دفاتر بڑے بڑے شہری علاقوں میں ہوتے ہیں، جو لوگوں کی بھاری اکثریت کی زندگی کے حقائق اور انکی فکروں سے کوسوں دور ہوتے ہیں- ان کے پیش نظر ایک خاص آبادی کی پسند ہوتی ہے (شہری، تعلیم یافتہ، انگریزی بولنے والے، درمیانہ اور اعلیٰ متوسط طبقہ، 25 سے 45-50 سال تک کی عمر کے لوگ)
یہ لوگ ریٹنگ کے معمولی اعداد وشمار کی بنیاد پر، جس میں اٹھارہ کروڑ سے زیادہ آبادی کی بھاری اکثریت کی رائے شامل نہیں، اپنے قلعہ بند ٹاوروں میں بیٹھ کر کس طرح فیصلہ کرلیتے ہیں کہ کیا بکتا ہے؟
کیونکہ کسی جزیرہ میں قید کوئی شخص اسی چیز کو ترجیح دیگا جو وہاں دستیاب ہے، یعنی یا تو کیلا یا ناریل، لیکن اگر وہاں اسٹرابیری نہیں ملتی تو اس کو کبھی بھی پتا نہیں چلے گا کہ وہ اسٹرابیری کھانا چاہتا ہے-
پاکستان میں اشتہار کی بنیاد پر کھڑا میڈیا بڑے خطرے سے دوچار نظر آتا ہے جہاں کارپوریٹ کی دنیا اوپر سے نیچے کی سطح پر اندازے لگا رہی ہے، وہ اپنے سرمایہ سے ان لوگوں کی حمایت کررہی ہے جن کے بارے میں وہ سمجھتی ہے کہ 'ان لوگوں' کو کیا پسند آئے گا --- یا اس بھی بدتر یہ کہ خود اس کی ترجیحات کیا ہیں- اور انکی ترجیحات بالکل غلط بھی ہوسکتی ہیں- وہ ناظرین کے سامنے گلے سڑے کیلے یا سوکھا سیٹھا ناریل رکھ دیں کہ جو جی چاہے اٹھا لو-
کیا اب وقت نہیں آگیا ہے کہ میڈیا مختلف ملکوں کے پروگرام دکھائے تاکہ لوگ خود فیصلہ کریں کہ وہ کیا دیکھنا چاہتے ہیں؟ کیونکہ ابھی تک ہماری جو پہنچ ہے وہ سمجھیے اتنی ہی ہے جتنا کہ مذہب: پاکستانی اپنے مذہب سے پیارکرتے ہیں لیکن ابھی تک انھوں نے مذہبی دائیں بازو کو اتنے ووٹ نہیں دیئے کہ وہ اقتدار میں آتے-
ترجمہ: سیدہ صالحہ