شیکسپیئر کا بھیانک خواب
میرے ایک دوست کی بیٹی اے لیول میں انگلش لٹریچر پڑھتی ہے، اس نے مجھے بتایا کہ اس کے کورس میں شیکسپیئر شامل ہے- جب میں نے اس سے پوچھا کہ کیا اسے شیکسپیئر پڑھنے میں مزہ آرہا ہے اور اسے اس کی کونسی بات اچھی لگی تو اس کا جواب تھا نہ تو اس کو شیکسپیئر سمجھ میں آتا ہے اور نہ ہی اس کی زبان چنانچہ اس کے ڈراموں کو سمجھنے کے لیئے وہ مختلف گائیڈز سے مدد لیتی ہے-
اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اس کی ٹیچر نے بھی جماعت کی تمام لڑکیوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ گائیڈز سے مدد لیں اور اصل کتاب پڑھنے میں وقت ضائع نہ کریں-
ایک اور اسکول کی معاشیات کی اے لیول کی طالبہ نے مجھے بتایا کہ ان کی ٹیچر پہلے انھیں امتحانی سوالات سمجھاتی ہیں اور پھر معاشی نظریات کی وضاحت کرتی ہیں- ان کی ٹیچر پہلے تو گزشتہ سالوں کے امتحانی پرچوں پر بحث کرتی ہیں اور اس کے بعد ان میں پوچھے گئے سوالوں کے 'بہترین' جوابات بتاتی ہیں، اور اس کے بعد ضرورت پڑے تو سوالوں سے متعلق نظریات کی وضاحت کرتی ہیں-
طلباء سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان جوابوں کو یاد کرکے دوبارہ لکھیں گے اس لیئے درسی کتابوں کو پڑھنے کی شاذ و نادر ہی ضرورت پڑتی ہے- بلکہ حقیقت میں، اگر ٹیچر یہ محسوس کرے کہ سوال جواب سے آگے بھی کچھ پڑھنے کی ضرورت ہے تو، اس صورت میں اس نے جو نوٹس طلباء کو دیئَے تھے وہ کافی ہیں اور درسی کتابوں کو پڑھنا ضروری نہیں-
چند سال پہلے، جب میں بی-اے کی ایک طالبہ کو انگریزی زبان کا امتحان دینے کی تیاری کروارہا تھا ، میں نے اس سے ایک مضمون انگریزی میں لکھنے کے لیئے کہا جو وہ کسی بھی عنوان پر لکھ سکتی تھی- جب اس نے جواب دیا کہ وہ کسی گائیڈ سے مضمون 'یاد' کرکے تو لکھ سکتی ہے لیکن خود سے نہیں تو میں حیران رہ گیا-
لیکن اس لڑکی کے معاملے میں زبان کا مسئلہ تھا- اس نے اردو میڈیم اسکولوں میں پڑھا تھا، انگریزی کو مضمون کی حیثیت سے کافی دنوں بعد پڑھنا شروع کیا تھا اور سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کی تھی، جہاں معیار تعلیم ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہا ہے-
اسے گائیڈ سے مدد لینی پڑتی ہے، یہ بات قابل فہم ہے- خاص طور پر اس کو انگریزی میں جواب رٹنے کی ضرورت پڑتی تھی- وہ اردو میں آسانی سے لکھ سکتی تھی اور اسے دوسرے مضامین میں رٹنے کی ضرورت نہیں تھی-
گریڈز حاصل کرنے کے لئے مقابلہ ہوتا ہے اور طلباء، ٹیچرز اور والدین چاہتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ اے گریڈز حاصل کریں- کالج میں داخلہ لینے اور اپنی قابلیت اور معیار ثابت کرنے کے لئے یہ ضروری ہے: ہم ساری دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ کتنا لائق ہے- اور یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ اچھے گریڈز کا مطلب ہے اچھی لیاقت- لیکن یہ آخری بات تھوڑی سی بحث طلب ہے اور یہیں سے مسئلہ پیدا ہوتا ہے-
والدین تعلیم کیوں دلاتے ہیں؟ کیا ان کا مقصد صرف یہی ہوتا ہے کہ ان کے بچوں کو اچھے کالجوں مین داخلہ مل جائے، انہیں ڈگری اور اچھی ملازمتیں مل جائیں؟ یا والدین یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے تعلیم پا کر اچھے انسان بنیں؟ کیا وہ چاہتے ہیں کہ وہ ایک بہتر شہری کے ساتھ ساتھ بہتر انسان بھی بنیں؟
غالباً، اکثر والدین چاہتے ہیں کہ تعلیم اچھا کیریر بنانے کا ذریعہ بنے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اچھے انسان بھی بنیں- لیکن اچھا انسان بننا اتنا آسان بھی نہیں اور پھر اس کا پیمانہ کیا ہوگا- لیکن تعلیم حاصل کرنا عملاً ممکن بھی ہے اور ضروری بھی اسی لئے والدین کی توجہ کارکردگی اور کیریر کے امکانات پر رہتی ہے-
بلا شبہ گریڈز اچھے ہوں تو مشہور اسکولوں میں داخلے کے امکانات کافی بڑھ جاتے ہیں لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کی وجہ سے کیریر کے مواقع بھی بڑھ جاتے ہیں- اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اچھے گریڈز کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کے بچے کو اچھی تعلیم مل رہی ہے، یہ کہ وہ صحیح معنوں میں علم حاصل کر رہا ہے، تعلیم سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہو رہا ہے اور اس کی شخصیت بن رہی ہے-
اس لئے پڑھنا کہ امتحانات اچھے ہو جائیں اور اچھے گریڈز مل جائیں، تعلیم کے مقصد کو بہت محدود کر دیتا ہے- اگر ہم شکسپئیر کے مطالعے کو گایڈز تک محدود کر دینگے تو پھر ہم نہ تو زندگی کے اسرار کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی زندگی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں- ضروری ہے کہ ہم اس کی کتابوں کو بار بار پڑھیں، اس پر غور و فکر کریں ان کا تجربہ کریں، یہاں تک کہ اس کے الفاظ طالب علموں کے سامنے معنوں کی ایک نئی دنیا کھول دیں.
سماجی علوم کو بھی، مثلاً، معاشیات کو بھی، پورے پس منظر کے ساتھ پڑھایا جانا چاہیئے- ضروری ہے کہ طالب علم اس کے مفہوم کو اور اس کے نظریات کو واضح طور پر سمجھیں تاکہ وہ اس کی گہرائی تک پہنچ سکیں- لیکن اگر ہم تعلیم کو اے لیول کے امتحانی سوالات کے'بہترین' جوابات تک محدود کر دینگے تو یہ ممکن نہیں-
جن دنوں میں کالج میں انڈر گریجویٹ تھا میرے کالج کے پرنسپل نے خیر مقدمی عشائیہ میں ایک بات کہی تھی جو مجھے ابھی تک یاد ہے- انھوں نے کہا تھا؛
"آپ یہاں یہ سیکھنے آئَے ہیں کہ کس طرح پڑھنا چاہیئَے-"
اس کے بعد انھوں نے ہمیں بتایا کہ گریجویشن سے پہلے کی تعلیم ہمیں اپنے شعبے کا ماہر نہیں بناتی، یہ ہمیں صرف پڑھنے کے طریقے بتاتی ہے، یہ بتاتی ہے کہ کس طرح ڈوب کر پڑھا جاتا ہے، اور یہ کس طرح ہم میں سمو جاتی ہے-
ان کا خیال تھا کہ کسی شعبے کے ماہر بننے کا مرحلہ، گریجویشن کی سطح سے شروع ہو سکتا ہے- اسکول کی سطح پر اس کا اطلاق اور بھی زیادہ ہوتا ہے- اے لیولز یا انٹرمیڈیٹ کے دوران ہم طالب علموں کو معاشیات یا ادب کا ماہر نہیں بناتے بلکہ ہم انھیں صرف یہ سکھاتے ہیں کہ پڑھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے-
گریڈز کی دوڑ وسیع تر مقصد کو کم کر دیتی ہے- کالج کی سطح پر طلباء تعلیمی معاملات کی زیادہ ذمہ داری اٹھاتے ہیں لیکن اسکول کی سطح پر ان کی عمر اتنی نہیں ہوتی کہ وہ یہ ذمہ داری اٹھا سکیں- جب بچے اسکول میں ہوتے ہیں تو ماں باپ کی ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے اور انھیں یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ ان کا بچہ کیا پڑھ رہا ہے اور کیسے-
اپنے ایک سابقہ مضمون میں، میں نے لکھا تھا کہ پچھلے پندرہ برسوں میں جبکہ میں یونیورسٹی میں پڑھا رہا تھا، میں نے محسوس کیا کہ طالب علموں کے پڑھنے لکھنے کے طور طریقوں میں اہم تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں- اگرچہ کہ میرے طلباء عمومی طور پر اور اوسطاً پندرہ سال پہلے کے طالب علموں کے مقابلے میں بہتر گریڈز حاصل کر رہے ہیں اور ان کے مضامین کا دائرہ بھی بڑھ گیا ہے لیکن ان کے علم میں وہ گہرائی نہیں اور ان کی سمجھ بھی محدود ہے-
اس کمی کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اب تعلیم و تدریس کو 'امتحانی سطح' تک محدود کر دیا گیا ہے-
ترجمہ: سیدہ سالحہ
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس faisal.bari@ideaspak.org اور bari@lums.edu.pk ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔