شمالی وزیرستان: فوجی آپریشن میں شہری ہلاکتوں کا الزام
اسلام آباد: شمالی وزیرستان کے قبائیلیوں نے پاکستان فوج پر طالبان کے خلاف حالیہ کارروائی میں متعدد شہریوں کی ہلاکت کا الزام عائد کیا ہے۔
یہ کارروائی اٹھارہ دسمبر کو شمالی ویزرستان میں طالبان شدت پسندوں کی جانب سے چوکی پر کیے گئے خود کش حملے کے ردعمل میں کی گئی۔
گزشتہ کچھ ماہ میں حکومت کی طالبان سے امن مذاکرات کی کوششوں کو دھچکا پہنچنے کے بعد اس علاقے میں فوجی آپریشن کے حوالے سے قیاس آرائیوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان فوج کے ترجمان نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ دہشت گردوں کے خلاف شمالی وزیرستان میں انیس دسمبر سے شروع کیا جانے والا یہ آپریشن فوجی قافلے پر حملے کے جواب میں کیا گیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ انٹیلی جنس معلومات پر ہونے والی اس کارروائی میں خصوصی طور پر غیر ملکی دیشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب تک تیس سے زائد دہشت گرد ہلاک ہو چکے ییں جن میں زیادہ تر ازبک ہیں جبکہ 'سیکورٹی فورسز شہری ہلاکتوں سے بچنے کے لیے ہر ممکن احتیاط سے کام لے رہی ہیں'۔
حکام نے علاقے میں مکمل کرفیو نافذ کر رکھا ہے اور علاقہ مکینوں کا دعویٰ ہے کہ ہیلی کاپٹرز سے کی جانے والی بھرپور گولہ باری کے باعث بہت سے لوگ نقل مکانی کر گئے ہیں۔
علاقے کے ایک رہائشی محمد طیب نے بتایا کہ فوج کی شیلنگ سے اس کے تین بچے اور بیوی ہلاک ہو گئی۔
طیب نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ حملے کے پہلے دن گولہ ان کے کمرے میں آن گرا جہاں ان کی بیوی اور بچے سوئے ہوئے تھے۔
علاقہ مکینوں نے الزام لگایا ہے کہ کارروائی کے نتیجے میں شہری ہلاکتوں کی تعداد کئی درجن ہے۔
میر علی کے ایک قبائلی رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اب تک ستر سے زائد شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
ان کا دعوی تھا کہ کچھ ٹرک ڈرائیوروں، ہوٹل اور دکان پر کام کرنے والوں کو براہ راست نشانہ بنایا گیا جبکہ شہری آبادی پر آرٹلری، گن شپ ہیلی کاپٹرز اور مارٹرز کے حملوں سے درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔
واضح رہے کہ صحافیوں اور مبصرین کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے شمالی وزیرستان سے آنے والی اطلاعات کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہے۔
ادھر، طالبان کے کمانڈر حافظ گل بہادر نے کہا ہے کہ اگر پیر کو شہریوں پر حملے بند نہ ہوئے تو وہ فوجی ٹھکانوں پر بھرپور انداز میں حملے کریں گے۔
شمالی وزیرستان کے رہائشیوں کا دعوی ہے کہ موساکی اور ہاسو خیل کے گاؤں میں لوگوں کی لاشیں کھلے آسمان تلے پڑی ہیں اور کسی کو وہاں جانے کی اجازت نہیں۔
میر علی کے رہائشی اسد علی نے کہا کہ 'ہم اپنے اہل خانہ کی حفاظت کے لیے یہاں سے جانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن مارٹر اور گولہ بارود ہمارا پیچھا کر رہے ہیں۔ایک شہری ملک گل صالح جان نے دعویٰ کیا کہ 'فوج ہمارے گھر اور بازاروں کو تباہ کر رہی ہے، میرے بچے مجھ سے روٹی مانگ رہے ہیں لیکن میں انہیں کچھ بھی دینے سے قاصر ہوں کیونکہ گھر میں کچھ موجود نہیں'۔
شمالی وزیرستان کی انتظامیہ کے ایک عہدے دارکا کہنا ہے کہ پیر کو قبائلی عمائدین اور فوجی افسران کے درمیان ایک جرگہ منعقد ہونے جا رہا ہے جس میں مذاکرات کے ذریعے معاملہ حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔