ہمارے اپنے شودر
'تذلیل' کس چیز کا نام ہے اس کا احساس مجھے اس دن ہوا جس دن یوسف نے میرا درجنوں بار کا کہا ہوا جملہ میرے ہی منہ پر دے مارا، "برتن لے آؤ کھانا لے جاؤ۔"
یوسف ہمارے گھر کے پچھواڑے ہم سے زیادہ کچے مکان میں رہنے والی عورت کا بیٹا تھا۔ اس عورت کا پورانام تو خدا جانے کیا تھا لیکن ہم اسے راج کہہ کر بلایا کرتے تھے۔
یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب ہم نئے نئے فیصل آباد شفٹ ہوئے تھے اور ایک درمیانے درجے کے علاقے میں کرائے کے گھر میں رہا کرتے تھے۔ ہمارا گھر اس پھیلتی ہوئی آبادی کے آخری سرے پر تھا جس سے آگے قبرستان اور قبرستان کے کنارے کنارے پھیلی ہوئی کچی آبادی تھی۔ آبادی بھی کیا تھی بس چند گھر تھے جن میں دو ایک مسلمانوں کے اور زیادہ تر عیسائیوں کے تھے۔
ہمارا گھر کچا پکا سا تھا، بس پکے مکانوں کا آخری گھر سمجھ لیں اور یوسف کا گھر کچے مکانوں کا پہلا گھر ہوگا۔ یہ آبادی ہمارے گھر تک پیپلز کالونی اور یوسف کے گھر اور اس سے آگے کوثر آباد کہلاتی تھی۔ اس حساب سے میں پیپلز کالونی کا آخری مکین تھا اور یوسف کوثر آباد کا پہلا رہائشی۔
آج جب بھی میں کہیں پاورٹی لائن یا خط غربت کا ذکر پڑھتا ہوں تو مجھے اپنا وہ گھر یاد آجاتا ہے۔ ہمارے گھر کی پچھلی دیوار اس علاقے کی پاورٹی لائن تھی جس کے ایک طرف میں اور دوسری طرف یوسف رہتا تھا۔
خط غربت کے اس طرف قبرستان ہم دونوں کا میدان تھا جس میں میں اپنے بھائیوں کے ساتھ کرکٹ اور یوسف اپنے دوست یاروں کے ساتھ بنٹے کھیلا کرتا تھا۔ جب کبھی کرکٹ کھیلنے والوں کی تعداد کو دو پر تقسیم کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا تو ہم اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے یوسف کو آواز دے لیا کرتے تھے اور وہ اپنے بنٹے چھوڑ چھلانگیں مارتا آ بھی جایا کرتا تھا۔
پہلی بار جب ہم نے اس کو بلایا تو ہم یہ طے کر چکے تھے کہ ٹاس ہارنے والی ٹیم کو یوسف کو اپنے ساتھ شامل کرنا ہوگا۔ پہلی ہی بار جب ٹاس جیتنے والی ٹیم یوسف کہ وجہ سے میچ ہار گئی تو اگلی بار سے اسے شامل کرنا ٹاس جیتنے والی ٹیم کا استحقاق قرار پایا۔ لیکن یوسف کو کرکٹ میں شرکت کا موقع تب ہی ملتا تھا جب ہم کھلاڑی پورے کرنے میں ناکام رہتے دوسری صورت میں یا تو وہ اپنے بنٹے کھیلتا رہتا یا پھر کوئی لمبا شاٹ لگنے کے انتظار میں ہمارا کھیل دیکھتا رہتا۔ اس لمبے شاٹ کے بعد گیند اٹھاکر لانے کو اس نے اپنے فرائض میں خود ہی شامل کر لیا تھا اور ہم بھی خوش تھے کہ کوں قبریں پھلانگتا جائے اور گیند کو جھاڑیوں میں ڈھونڈتا پھرے۔یوسف کی ماں راج ہمارے گھر میں جھاڑو پونچھا بھی کیا کرتی تھی اس لیے اس کا ہمارے گھر میں آنا جانا بھی تھا۔ عید شبرات یا جب گھر میں کوئی دعوت ہوتی تو ہماری اماں اپنے آس پاس کے جن گھروں میں کھانا بھیجا کرتی تھیں ان میں یوسف کا گھر بھی شامل تھا لیکن کچھ فرق کے ساتھ۔ باقی جگہوں پر ٹرے ڈھک کر جایا کرتھی اور یوسف کے گھر یہ پیغام کہ برتن لے آؤ کھانا لے جاؤ۔
زندگی اپنی رفتار سے گزر رہی تھی کہ کرسمس آگیا۔ خدا جانے یوسف کی ماں نے اس سے کہا یا کبھی کبھار باری ملنے کی وجہ سے وہ خود کو کرکٹ کا کھلاڑی سمجھنے لگا تھا جو خود ہی اس نے ہمارا دورازہ کھٹکھٹادیا۔ میں دورازے پر پہنچا تو یوسف نے کھٹ سے میرا کئی بار کا کہا ہوا جملہ دہرا دیا۔ برتن لے آؤ کھانا لے جاؤ۔ مجھے لگا جیسے اس نے میرے منہ پر تھپڑ مار دیا ہو۔ میں نے یوسف کو تو کچھ نہیں کہا لیکن اس کے منہ پر دروازہ دے مارنے کے انداز میں دروازہ بند کر کے اندر آیا تو میرا دماغ سنسنا رہا تھا۔
ماں کو سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ یہ بات بتائی تو اس نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ یوسف سمجھا ہو کہ ہمارے گھر کا رواج ہی یہی ہے آخر ہم بھی تو یہی کہتے ہیں اسے۔ ماں نے یہ بھی کہا کہ وہ یوسف کی ماں کو سمجھا دیں گی۔ ہم یوسف کی کم عقلی پر ہنسنے لگے کہ بھلا ایسا بھی ہوتا ہے کہیں، ہنسی ہنسی میں بات آئی گئی ہو گئی۔کچھ دن بعد کلاس میں پاکستان بننے کی کہانی سناتے ہوئے ٹیچر نے بتایا کہ ہندو مسلمانوں کو ملیچھ سمجھتے تھے، شودروں سے بھی کمتر۔ ان کے ساتھ کھانا تو کیا ان کے برتنوں مین پانی بھی نہیں پیتے تھے۔ میں نے جھٹ یوسف کی مثال پیش کر دی۔ مجھے یاد ہے ٹیچر کا چہرہ میری بات سن کر اس سے کہیں زیادہ سرخ ہوا تھا جتنا میرا یوسف کی بات پر ہوا تھا۔ انہوں نے ماں کی طرح تو نہیں لیکن سمجھایا کہ مسلمان ایسا نہیں کرتے کیونکہ انہوں نے اسی تنگ نظری کی وجہ سے تو یہ ملک بنایا تھا۔
میں نے گھر آکے ماں سے پوچھا کہ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں کیوں کہ مس کہتی ہیں مسلمان ایسا نہیں کرتے۔ اب کی بار ماں کا چہرہ سرخ تھا میرے اور مس دونوں کے چہرے سے کہیں زیادہ۔ اب کے انہوں نے سمجھایا بھی نہیں۔ ان کے نا سمجھانے کے باوجود اس بار بات میری سمجھ میں آگئی۔ ہم نے پاکستان اپنے ملیچھ ہونے کی وجہ سے بنایا ہو یا نا بنایا ہو اس لیے ضرور بنایا تھا کہ ہمیں اپنے برتن علیحدہ کرنے کے لیے شودر چاہئیے تھے۔ ہمارے اپنے شودر۔
مس نے یہ بھی بتایا تھا کہ شودروں کو گیتا پڑھنے کی اجازت نہیں تھے کے کان میں اگر گیتا کا کوئی لفظ پڑ جاتا تھا تو گیتا بھرشٹ ہو جاتی تھی۔ گیتا کو بھرشٹ کرنے کے جرم میں سننے والے کے کان میں سیسہ پگھلا کے ڈالا جاتا تھا۔ پچھلے ہفتے مجھے پتا چلا کہ لاہور کے انارکلی بازار میں ایک شودر نے مقدس کتاب کے کچھ لفظ پڑھ کر اسے بھرشٹ کر دیا ہے۔ میرے کان میں سیسہ پگھلانے والی بھٹی چلنے کی آواز آ رہی ہے۔
پتا نہیں یہ شودر سمجھ کیوں نہیں جاتے کہ ہم نے یہ ملک کیوں بنایا تھا۔ انہیں ابھی تک اتنی بھی سمجھ نہیں آئ کہ کبھی کبھار بال پکڑ کر لانے کی اجازت دینے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ اپنے آپ کو ٹیم کا حصہ سمجھنے لگ جائیں۔ یہ بار بار ہمارا دروازہ کھٹکھٹا کر کیوں ہمارا صبر آزماتے ہیں، ایک آدھ بار تو بات ہنسی میں ٹالی جا سکتی ہے، ہر بار تو یوں نہیں ہوتا۔۔۔
شاعری اور تھیٹر کو اپنی ذات کا حصّہ سمجھنے والے سلمان حیدر راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔