نقطہ نظر

سست پیشرفت

شہباز شریف کا دورہ ہندوستان، پاکستان کی طرف سے خیر سگالی جذبات کے علاوہ نتیجہ کچھ نہیں۔

شہباز شریف کا دورہ ہندوستان، امن عمل کی کوششوں کی بحالی کی خاطر پاکستان کی طرف سے ہندوستان کے لیے مخلصانہ پیغام ہے۔

نواز شریف کے سب سے قابلِ اعتماد ساتھی اور چھوٹے بھائی، پنجا ب کے وزیرِ اعلی نے بھارتی وزیرِ اعظم کو ان کے پاکستانی ہم منصب کی جانب سے نیک خواہشات پر مبنی پیغام پہنچایا کہ متعدد مشکلات کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان معمول کے تعلقات جلد از جلد بحال ہونے چاہئیں۔

شہباز شریف ایک ایسے وقت میں ہندوستان کا دورہ کررہے ہیں جب نواز شریف اور منموہن سنگھ کے درمیان نیویارک میں ہونے والی ملاقات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر جنرلز ملٹری آپریشن کو ملاقات کر کے معاملات ٹھیک کرنے کی ہدایت کے بعد اب، نسبتاً کشمیر کی صورتِ حال میں خاصی بہتری آچکی ہے۔

ساتھ ہی وزیرِ اعظم شریف کی ہندوستانی ہائی کمشنر سے ملاقات کے دوران، دونوں ملکوں کے سیکیورٹی ایڈاوائزر کی سطح پر کاؤنٹرٹیررازم کے مسئلے پر مذاکرات کی پیشکش بھی گراں قدر اہمیت کی حامل ہے۔

ہندوستانی ذرائع ابلاغ کے ساتھ گفتگو میں شہباز شریف نے 'ماضی' کی تلخیوں کو دفن کے کشمیر سمیت تمام مسائل کو پُرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ اس پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ جناب شہباز شریف کی جانب سے کی گئی زیادہ تر درخواستوں کا کوئی جواب نہیں ملا۔

اس وقت ہندوستان کی ناؤ انتخاباتی منجدھار کے بیچوں بیچ میں ہے اور حالیہ ریاستی انتخابات میں شکست کے بعد، اس وقت کانگریس ایسی پوزیشن میں بالکل نہیں کہ خارجہ پالیسی کے میدان پر کوئی بڑا اور اہم قدم اٹھاسکے۔

بنیاد پرست بی جے پی مضبوط ہورہی ہے اور گجرات کے اینٹی مسلم نریندر مُودی وزیرِ اعظم کے امیدوار ہیں، لہٰذا ایسے میں پاکستان کی طرف کانگریس کی کوئی بھی نرم پالیسی، اسے ہندوستان کے بنیاد پرست حلقوں کی مزید نفرت کی طرف دھکیلے گی۔

جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو یہاں ممبئی حملوں کا مقدمہ چلانے اور ہندوستان کو 'پسندیدہ ترین ریاست' کا درجہ دینے کے معاملات سرگرمی سے آگے بڑھانے میں ناکامی نظر آتی ہے۔

ممبئی حملوں کے ملزمان پر مقدمہ چلانے میں غیر ضروری تاخیر سے دائیں بازو کے سخت گیر ہندوستانی بنیاد پرستوں پر مشتمل میڈیا کو ایک موقع ہاتھ لگ گیا ہے، جسے وہ پاکستان مخالف جذبات کو بڑھاوا دینے کی خاطر استعمال کررہے ہیں۔

اس کے فوائد کے پیشِ نظر، ہم کہہ سکتے ہیں شہباز شریف کا دورہ خیر سگالی کے نیک جذبات پر مشتمل تھا، جس کے کوئی نتائج برآمد نہیں ہوں گے اور جہاں تک من موہن سنگھ کے دورہ پاکستان کی دعوت قبول کرنے کی بات ہے تو ہندوستانی وزیرِ اعظم پہلے بھی کئی بار ایسا کرچکے ہیں۔

ضرورت ہے کہ دونوں جانب کی حکومتیں سخت گیر عناصر سے نمٹیں اور امن عمل پر پیشرفت میں حائل رکاوٹیں دور کرتے ہوئے اسے بحال کریں۔

انگریزی میں پڑھیں۔

ڈان اخبار