نقطہ نظر

منٹو کا لکشمی مینشن

اتفاق سے منٹو صاحب وہاں کھڑے سب سن رہے تھے۔ انھوں نے سر کو جھٹکا دیا اور 'چغد' کہتے ہوئے چلے گئے۔

'لکشمی' ہندو دھرم میں 'دولت کی دیوی' مانی جاتی ہے۔ لکشمی کو خوشحالی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور اس کی پوجا بھی کی جاتی ہے۔ ہندؤں کا یقین ہے کہ اگر لکشمی دیوی کسی سے روٹھ جائے تو وہ کنگال ہوجاتا ہے اور کہیں کا نہیں رہتا۔

لکشمی کے نام سے پاکستان میں دوعمارتیں ہیں ایک ایم اے جناح روڈ کراچی پر واقع ہے جب کہ دوسری عمارت لاہور شہر کے مشہور مال روڈ کے قریب واقع ہے۔ لاہور میں لکشمی چوک بھی ہے۔ لکشمی مینشن لاہور میں اردو کے نامور ادیب اور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو رہائش پذیر تھے۔ ان کے علاوہ سابق نگراں وزیراعظم ملک معراج خالد اور مشہور دانشور عائشہ جلال کے والد بھی یہیں رہتے تھے۔

ملک معراج خالد اور عائشہ جلال کا خاندان اس عمارت سے کہیں اور منتقل ہوگیا۔ جب کہ منٹو صاحب کی بڑی بیٹی نگہت پٹیل اب بھی اسی عمارت کے ایک فلیٹ میں رہائش پذیر ہیں۔ ہم نے سعادت حسن منٹو کی بیٹی نگہت بشیر پٹیل سے عمارت سے وابستہ ان کی یادوں کے بارے میں گفتگو کی اور علاقے کے ایک معمر رہائشی جوہر عباس صاحب سے بھی بات چیت کی۔ جوہر صاحب اب تقریباً 100 کے پیٹے میں ہوں گے۔ وہ منٹو سے ایک لفظ "چغد" کے معنی جاننا چاہتے تھے لیکن ان کی خواہش ایک حسرت ہی رہی۔ وہ یہ کیوں جاننا چاہتے تھے اس کا ذکر ان سے کی گئی بات چیت میں ملے گا۔

کراچی کی لکشمی بلڈنگ کے حوالے سے مورخ عثمان دموئی اپنی کتاب کراچی تاریخ کے آئینے میں لکھتے ہیں کہ؛قیام پاکستان سے قبل یہ کراچی کی سب سے بلند عمارت تھی۔ یہ بندر روڈ پر عین تجارتی علاقے میں واقع ہے۔ اسے لکشمی انشورنس کمپنی لاہور نے تعمیر کرایا تھا۔ اس انشورنس کمپنی کے مالک لالہ لجپت رائے تھے۔ تعمیر کے بعد افتتاح 24دسمبر 1938ء کو برصغیر کی مشہور سیاسی شخصیت مسز سروجنی نائیڈو نے کیا تھا۔ عمارت کے اوپر پہلے لکشمی دیوی یعنی دولت کی دیوی کا مجسمہ نصب تھا۔ جسے قیام پاکستان کے بعد ہٹادیا گیا تھا۔ اس عمارت کی آرکیٹیکٹ کمپنی میسرز ڈی۔ایچ دارو والا اینڈ کمپنی کراچی تھی جبکہ کنٹریکٹر ہندوستان کنسٹرکشن کمپنی تھی۔

سعادت حسن منٹو کی سب سے بڑی بیٹی نگہت بشیر پٹیل بھی اب اپنے اس فلیٹ کو بیچ کر کہیں اور منتقل ہونے والی ہیں۔ اس فلیٹ سے ان کے بچپن، شادی کی یادیں وابسطہ ہیں۔ وہ یہ فلیٹ کیوں بیچنا چاہتی ہیں اس کا احوال انہوں نے کچھ یوں بیان کیا۔ میری پیدائش 1946ء کی ہے اور 1947ء کے بعد ہم لوگ یہاں آگئے۔ میں ایک سال کی تھی جب اس گھر میں آئی ہوں۔ میری شادی، میری بہنوں کی شادیاں، میری کزنز وغیرہ ان کی شادیاں یعنی کہ بے شمار شادیاں بھی ہوئی ہیں۔ یہاں تک کہ نور جہاں تک آئی ہوئی ہیں میری شادی میں۔ انہوں نے گایا بھی ہے۔ پھر اسکے بعد بھی ایک دفعہ پھر آئی تھیں۔ مگر اب تو وہ بات ہی نہیں رہی۔ اب یہاں پر دکانیں بن چکی ہیں۔ اور ہم بھی اب انشاء اللہ یہاں سے شاید چلے ہی جائیں گے۔

اس عمارت کو بچانے کے لیے ڈاکٹر محمود علی ملک نے کافی کچھ کیا تھا۔ انہوں نے تو اسٹے بھی لیا تھا۔ میں اکیلی ہوں میرے میاں بیمار رہتے ہیں۔ آپ مجھے بتائیں کہ اگر اس تاریخی عمارت کو گرنے سے بچانا ہے تو کون ساتھ دیگا۔ یا تو کوئی گورنمنٹ ساتھ دینے والی ہو۔ بہت ہی اچھا ہو اگر یہ لکشمی مینشن بچ جائے۔ یہاں سب گھر تھے ہماری ہم عمرلڑکیاں رہتی تھیں۔ اب تو ماشاء اللہ کوئی کہاں چلا گیا کوئی کہاں چلا گیا۔ اب بھی آتے ہیں کئی لوگ اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارا’ "لوسٹ پیراڈائیز" ہے۔ ہم لوگ اسکی جتنی بھی قدر کریں کم ہے۔

مگرآپ جانتے ہیں کہ قدر کرنے والے اب ہیں کہاں۔ سنا ہے کوئی بابر محمود ہیں اور خالد صاحب ہیں یہ سب انہوں نے خریدا ہے۔ پچھلے سال میں تو انڈیا گئی ہوئی تھی مجھے تو اس بات کا کوئی علم نہیں ہوا۔ میرے خیال میں میرے والد منٹو صاحب کی سینٹینری تھی تو ہم لوگوں کو انڈیا بلایا تھا۔ جب میں واپس آئی تو یہ آدمی جو خالد صاحب ہیں میرے پاس آئے اورمجھے کہنے لگے کہ ہم لوگ کو یہ توڑنا ہے۔ اس وقت تو مجھے یقین نہیں آیا۔ لیکن واقعی ایسا ہی ہوا اور انہوں نے عمارت کو توڑنا شروع کر دیا۔ اس سے پہلے میں نے بڑے انٹرویوز دئیے۔ سب کو کہتی تھی کہ یہ جگہ ختم ہونے والی ہے مگرکسی نے نوٹس نہیں لیا۔ آہستہ آہستہ یہ سارا کچھ بکنا شروع ہوا ہے۔

بے شمار گھر تھے اور ایک ایک کرکے بکنا شروع ہوئے ہیں۔ یہاں پر نہ تو ورثے والوں نے سوچا اور نہ ہی ہیریٹیج والوں نے کبھی۔ آپ خود بتائیں کہ یہاں کیسے رہ سکتے ہیں۔ اور اب تو یہاں پر دکانیں بھی کھل جائیں گی تو یہاں پر اب رہا جاسکتا ہے؟ ابھی سے ہی آپ دیکھیں یہاں کتنی گندگی ہے۔ گارڈن کو بھی قبضے میں لے لیا ہے ۔ ہماری تینوں بہنوں نے تو سوچ لیا ہے اس کو سیل کرنے کا۔ ہمارے گھر کے اوپرحامد جلال رہا کرتے تھے۔ اور ان کی بھی بیٹی عائشہ جلال ہیں جوکہ آپ سمجھ لیں کہ پاکستان کے لیے ایک اثاثہ ہیں۔

ملک معراج خالدکا گھر بک گیا ہے۔ ان کا بیٹا ہی تھا جس نے بیچ دیا۔ اب ہم منٹو کی بیٹیاں ہی ہیں تو ہم ہی بیچیں گے نا۔ اب یہ جگہ جب کمرشلائزڈ ہوجائے گی تو کون رہ پائے گا۔ تکلیف تو بہت ہوتی ہے یہ سب دیکھ کر۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ جی منٹو تو یہاں رہا ہی نہیں۔ منٹو کے نام کا یہ گھر ہی نہیں ہے۔ واقعی گھر منٹو کے نام نہیں، یہ بات ان کی صحیح ہے لیکن صرف اس حد تک کہ گھر میری والدہ صفیہ کے نام ہے۔

جب نجم سیٹھی پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ تھے تو ان کے دور میں فیض احمد فیض کی بیٹی سلیمہ ہاشمی جو صوبائی وزیر تھیں میرے پاس ملنے آئی تھیں۔ انہوں نے ہمارے فلیٹ کو تاریخی ورثہ بنانے کی بات کی تھی۔ میں نے انہیں کہا تھا کہ اگر وہ اسے کسی لائیبریری میں تبدیل کرنا چاہتی ہیں یا کچھ اور بنانا چاہتی ہیں تو ایسا ضرور کریں لیکن ہم اس گھر کو ڈونیٹ نہیں کرسکتے سیل کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے بھی کوئی رابطہ نہیں کیا۔ حکومت نے ہماری کبھی کوئی مدد نہیں کی اتنے عرصے بعد صرف ایک ایوارڈ دیا ہے۔

جہاں تک منٹو صاحب کی کتابوں کی رائلٹیز سے حاصل ہونے والی آمدنی کا معاملہ ہے تو سنگِ میل ایک ایسا ادارہ ہے جو ہمیں رائلٹی دیتا ہے ورنہ تو لوگ دھڑا دھڑ بغیر اجازت کے چیزیں چھاپ رہے ہیں اور چھاپتے رہیں گے۔ ایک بار کچھ لوگ آئے تھے اور گھر کی پیمائش کی اور کہنے لگے کہ ہم اس گھر کو پینٹ کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک میں اس گھرمیں ہوں میں پینٹ نہیں کرانا چاہتی اگر آپ اس کو خرید لیں تو جو آپ کی مرضی چاہے کریں۔

جوہر عباس صاحب بھی اس عمارت میں رہائش پذیر ہیں انہوں نے عمارت کے قیام اور منٹو صاحب کے حوالے سے اپنی یاداشتیں بیان کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ لکشمی مینشن پہلے سر شادی لال کی ایک بہت بڑی کوٹھی تھی۔ 1930 کے قریب سر شادی لال نے یہ کوٹھی لکشمی انشورنس کمپنی کو بیچ دے دی ۔لکشمی انشورنس کمپنی نے یہ پوری کوٹھی توڑ کر فلیٹ بنادئیے اور فلیٹس کے ساتھ کوارٹرز بھی بنادئیے جو کہ فلیٹس میں رہائش پذیر فیملیز کے ملازمین کی سہولت کے لیے تھے۔ میں پاکستان بننے سے پہلے یہاں رہائش پذیر ہوں۔ اس وقت فلیٹ کا کرایہ 62 روپے ماہوار تھا۔

تحریک پاکستان چلی تو لکشمی انشورنس کمپنی کے مالکان کو جو تقریباً سب ہندو سکھ تھے انہوں نے فلیٹس وغیرہ بیچنا شروع کر دئیے۔ کچھ فلیٹس ہندوؤں نے خریدے، کچھ پارسیوں نے۔ جو بک سکتے تھے بک گئے، باقی رہ گئے۔ پھر پاکستان بن گیا۔ اس کے بعد مہاجرین آئے تو یہ تمام فلیٹس ان کو اور کچھ اور لوگوں کو الاٹ ہوگئے۔ آج سے 10 سال پہلے کچھ مہاجرین اپنے فلیٹس بھی بیچ کر چلے گئے۔

مال روڈ پر موبائلوں کا بزنس چمک گیا اور ان دکانوں کے مالکان نے لکشمی مینشن کے لوگوں کو لالچ دینا شروع کیا تو لوگوں نے اپنے فلیٹس ان دکانوں کے مالکان کو بیچنا شروع کردئیے۔ دکان کے مالکان نے لکشمی مینشن کا ایک حصہ خرید لیا اور اسے گرا کر مارکیٹ بنانا شروع کردی اور اب تو وہ مارکیٹ تقریباً تیار ہی ہوگئی ہے۔ اب جو باقی کوارٹر رہ گئے تھے وہ بھی انھوں نے خرید لیے۔ بس چند ایک کوارٹر باقی رہ گئے ہیں ان کوارٹرز کو بھی مسمار کرکے یہاں پر بھی مارکیٹ بنادیں گے۔

اگر مجھے مجبور کیا گیا تو طاقتور لوگوں کے سامنے ہمارا بس نہیں چلے گا۔ اور مجبوراً بیچنا ہی پڑے گا۔ یہ ایک پرانا تاریخی ورثہ ہے، بہت پیارے بہت خوبصورت فلیٹس تھے۔ اب جب ہم ان کو دیکھتے ہیں تو بہت دکھ ہوتا ہے۔ ابھی تو میرا کوئی ارادہ نہیں ہے فلیٹ بیچنے کا کیوں کہ یہاں پر میری ایک دکان بھی ہے۔ منٹو صاحب تو میرے خاص دوست تھے، میرے پاس آتے تھے۔ کیپسٹن کی سگریٹ پیتے تھے۔

میں آپ کو ایک واقعہ سناؤں کہ میں یہاں پر جوس بھی بیچتا تھا۔ کچھ خواتین یہاں آئیں انہوں نے لپ سٹک لگائی ہوئی تھی۔ انھوں نے یہاں جوس پیا تو گلاس پر ان کی لپ سٹک کا نشان بن گیا تھا، انھوں نے گلاس رکھا اور چلی گئیں۔ پھر دو لڑکے آئے، گلاس اٹھایا اور پوچھا کہ یہ گلاس کتنے کا ہے۔ اس زمانے میں تو گلاس صرف 1 روپے کا ہوا کرتا تھا میں نے کہا کہ جی 1 روپے کا ہے گلاس۔ کہنے لگے کہ یہ گلاس ہمیں دیدو۔ میں نے کہا آپ لے لو میں اور نئے گلاس خرید لونگا۔ میں اس گلاس کو دھو دیتا ہوں۔ کہنے لگے نہیں اگر گلاس دھو دیا تو ہمارا خریدنے کا مقصد نہیں رہے گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے نہیں دھوتا۔ پھر میں نے پوچھا آپ کیا کرو گے اس گلاس کا۔ کہنے لگے ہم اس کو اپنے ڈرائنگ روم میں رکھیں گے اور یہ جو گلاس پر لپ سٹک کا نشان ہے (چاند) اس کو دیکھتے رہیں گے۔

اتفاق کی بات وہاں پر منٹو صاحب بھی کھڑے ہوئے سب سن رہے تھے۔ انھوں نے سر کو جھٹکا دیا اور 'چغد' کہتے ہوئے چلے گئے۔ بعد میں میں نے سوچا کہ مجھے لوفر، لفنگے، اچکے کا مطلب تو آتا ہے صرف چغد کا مطلب نہیں معلوم،سوچا منٹو صاحب آئیں گے تو ان سے پوچھوں گا کہ چغد کس کو کہتے ہیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ جس دن بھی وہ آتے تھے۔ کوئی نہ کوئی ان کا دوست آکر چنبڑ (چمٹ) جاتا تھا، موقع ہی نہیں ملتا تھا بات کرنے کا۔ وہ بڑے اچھے انسان تھے۔ سفید عینک لگاتے تھے موٹے شیشوں والی، اکثر میری دکان پر آکر کھڑے ہوجاتے تھے. ان کا حلقہ احباب بڑا وسیع تھا۔ اللہ مغفرت کرے فوت ہوگئے۔

کراچی کی لکشمی بلڈنگ مسمار تو نہیں ہو رہی ہان البتہ اس پر نصب افتتاحی تختی جس پر سروجنی نائیڈو کا نام لکھا تھا سفید رنگ پھیر کر مٹا دیا گیا ہے.

انگلش میں پڑھیں .

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔