نقطہ نظر

امریکی وارننگ

نیٹو سپلائی رستہ صاف کرو ورنہ امداد خطرے میں، امریکی وزیرِ دفاع اسلام آباد کو خبردار کرگئے۔

امریکی وزیرِ دفاع چک ہیگل پیر کو اسلام آباد پہنچے اور ضروری طور پر خبردار کر گئے کہ اگر پاکستان کے ذریعے، رکاوٹ کا شکار نیٹو سپلائی کا رستہ صاف نہ ہوا تو پھر واشنگٹن پر مرتب اثرات کے نتیجے میں، پاکستان کے واسطے امریکی امداد بھی خطرے میں پڑسکتی ہے۔

گذشتہ روز وزیرِ اعظم نواز شریف نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کو داخلی سطح پر درپیش دہشتگردی کے خطرے سے فوری نمٹنے کی خاطر اُن کی حکومت کام کررہی ہے۔ گذشتہ روز ہی پاکستانی پارلیمنٹ نے ایک متفقہ قرارداد بھی منظور کی تھی، جس میں حکومت پر زور دیا گیا تھا کہ پاکستان کے اندر کیے جانے والے ڈرون حملے بند کرائے جائیں۔

چوبیس گھنٹوں کی مختصر مدت میں تین واقعات لیکن ہر ایک، پاک امریکا تعلقات کے ایک بڑے مسئلے سے منسلک ہے۔

زیادہ تر یہی کہتے ہیں کہ دونوں جانب سے کبھی مکمل اتفاق تو کبھی کبھی اختلاف سامنے آتا رہتا ہے لیکن کوئی بھی فریق وہ مسائل حل کرنے پر تیار نہیں جو ان کے تعلقات کے واسطے نہایت اہم ہیں۔

ابتدا کرتے ہیں لگے لپٹے انداز میں جناب ہیگل کی دھمکی سے۔ اپنے جوہر میں، امریکی وزیرِ دفاع نے پاکستان کی ملکی سیاست کو خبردار کیا کہ آئندہ برس تک، افغانستان کے اندر امریکا اور اس کے فوجی اتحادی ممالک کی راہ میں اسے حائل نہیں ہونا چاہیے۔

ہوسکتا ہے کہ پی ٹی آئی نے خارجہ پالیسی کے ایک علاقے پر قبضہ کر کے تنِ تنہا ایسا فیصلہ کیا جس کا قانون یا معاہدوں کی رُو سے دفاع نہیں کیا جاسکتا لیکن یہاں لامحالہ طور پر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے اندر امریکی ڈرون حملوں کی سخت مخالف موجود ہے۔

شمالی وزیرستان میں حکیم اللہ محسود اور ہنگو میں حقانی نیٹ ورک کے رہنما کو قتل کرنے کی کوشش، اُس امریکی عزائم کا ایک بار پھر اظہار تھے، جس نے بدستور، فوج اور انٹیلی جنس کی بگھی کو سیاسی اور حکمتِ عملی کے گھوڑوں کے سامنے جوت رکھا ہے۔

ڈرون حملوں کے سبب پاکستان میں امریکا مخالف جذبات کے شعلے مزید بھڑکتے جارہے ہیں، جس کی باعث یہاں اعتدال پسند سیاسی قوتوں کو ملکی اور عالمی دباؤ کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی راہ تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

عسکریت پسندی کے خلاف کارروائی کے لیے حکومت کی واضح اور جامع حکمتِ عملی نظر نہیں آتی، ایسے میں جناب شریف کا یہ دعویٰ شاید ہی قابلِ اعتماد ہو کہ اُن کی حکومت دہشتگردی کے خاتمے کی خاطر 'جنگی بنیادوں' پر کام کررہی ہے۔

دریں اثنا، پارلیمنٹ نے مثال پیش کردی ہے کہ عسکریت پسندی کے خلاف جنگ کی حکمتِ عملی کے ساتھ مسائل منسلک ہیں: ڈرون حملے اور ان پر دبے الفاظ میں گفتگو، اگر ایسا ہے تو پھر کس نے اس سرزمین پر عسکریت پسندوں کو چھوڑا ہے۔

لہٰذا، اس طرح دیکھیں تو مشکل صورتِ حال آسان نظر آسکتی ہے۔

امریکا ڈرون حملوں میں پاکستانی سرزمین پر لوگوں کو قتل کرنا چاہتا ہے اور جب اس پر ردِعمل آئے تو پریشان ہوجاتا ہے۔ پاکستان، امریکی ڈرون حملوں کی مذمت تو کرتا ہے لیکن دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے اس مسئلے سے نمٹنے کی خاطر خواہ کوشش نہیں کرتا، جس کے باعث ڈرون اُس کی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔

دونوں فریقین میں سے کوئی بھی خلا پُر کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتا، استحکام یا باہمی احترام کے لیے بمشکل ہی یہ نسخہ کارگر ہو۔

انگریزی میں پڑھیں۔

ڈان اخبار