بنگلہ دیش: جماعتِ اسلامی کے رہنما کو پھانسی کے وارنٹ جاری
ڈھاکہ، بنگلہ دیش: کل بروز اتوار آٹھ دسمبر کو بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے جیل کی اتھارٹیز کو ایک مذہبی لیڈر کو پھانسی دینے کا حکم دیا ہے، چند ماہ پہلے انہیں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ اس سے بدامنی کے شکار ملک میں تصادم کی ایک نئی لہر اُبھرنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
جماعت اسلامی کے ایک اہم لیڈر عبدالقادر ملّا کو ستمبر میں موت کی سزا دی گئی تھی، جب سپریم کورٹ نے جنگی جرائم کی ایک مقامی عدالت انٹرنیشنل کرائم ٹریبیونل (آئی سی ٹی) کی جانب سے دی جانے والی عمر قید کی سزا کو مزید کڑی سزا میں بدل دیا تھا۔
کل بروز اتوار کو انٹرنیشنل کرائم ٹریبیونل نے ”ملّا عبدالقادر کی پھانسی کا ایک وارنٹ جاری کردیا“ اور اس کو جیل کے حکام کو بھیج دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پینسٹھ برس کے ملّا کو کسی بھی دن پھانسی پر لٹکایا جاسکتا ہے، اب انہیں صرف اس صورت میں معافی مل سکتی ہے، کہ یا تو صدر عبد الحامد ان کی اس سزا کو معاف کردیں، یا پھر اعلٰی ترین عدالت اس مقدمے پر نظرثانی کرے۔
پراسیکیوٹر زیاد المعلم نے اے ایف پی کو بتایا کہ ”جیل کے حکام اب جیل کے قواعد و ضوابط کے مطابق انہیں پھانسی دے دیں گے۔“ انہوں نے زور دیا کہ صرف صدارتی معافی ہی اس سزا پر عملدرآمد کو روک سکتی ہے۔
نائب وزیر قانون قمر الاسلام نے اے ایف پی کو بتایا کہ کم سے کم ممکنہ وقت میں ملّا عبدالقادر کو پھانسی دی جاسکتی ہے۔لیکن انہوں نے کوئی خاص وقت نہیں بتایا۔
وکیلِ صفائی کا کہنا ہے کہ ملّا عبدالقادر کے خلاف فیصلے کا اعلٰی عدالت میں جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ لیکن سرکاری وکیلوں اور نائب وزیرِ قانون قمرالاسلام نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا۔
وکیل صفائی تاج الاسلام نے اے ایف پی کو بتایا کہ ”اگر سپریم کورٹ کی جانب سے اس مقدمے کا جائزہ لیے بغیر اگر انہیں پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے تو یہ ایک قتل کا معاملہ بن جائے گا۔ یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔“
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے خلاف بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے فتح کے دن سولہ دسمبرکو ملّا عبدالقادر کو پھانسی دی جاسکتی ہے۔
نو مہینے کی آزادی کی جنگ کے دوران جنگی جرائم کا ملّا عبدالقادر کو مرتکب قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے اور جماعت اسلامی کے دیگر رہنماؤں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ڈھاکہ کی آزادی کی مخالفت کی تھی۔
ان کی پھانسی ملک میں تصادم کی ایک نئی لہر کو متحرک کرسکتی ہے، جو پہلے ہی 1971ء کے بعد سب سے ہلاکت خیز سیاسی تشدد سے گزر رہا ہے۔
جماعت کے رہنماؤں کو موت کی سزا سنانے پر ملک بھر میں لاکھوں اسلام پسندوں کا احتجاج فساد میں تبدیل ہونے اور پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں کم ازکم 150 افراد اس سال کی ابتدا میں ہلاک ہوچکے ہیں۔
پچھلے چھ ہفتوں کے دوران 70 افراد ہلاک ہوئے جب مرکزی حزبِ اختلاف اور اس کے جماعت اسلامی سمیت اسلامی اتحادیوں کے جانب سے وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو استعفیٰ دینے اور غیرجانبدارانہ حکومت کے تحت انتخابات کے لیے راہ ہموار کرنے پر مجبور کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر احتجاج شروع کیا گیا۔
ملّا عبدالقادر کو جنسی زیادتی، قتل عام سمیت تین سو پچاس غیر مسلح بنگالی شہریوں کے قتل کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ پراسیکیوٹر نے انہیں ”میرپور کا قصائی“ کا نام دیا، میرپور ڈھاکہ کا مضافاتی علاقہ ہے، جہاں مبینہ طور پر انہوں نے زیادہ تر مظالم کا ارتکاب کیا تھا۔