دنیا

امریکی اراکین کانگریس کا ڈرون حملے جاری رکھنے پر زور

امریکی کانگریس کے ایک رکن اسٹیوشابوٹ نے اتفاق کیا کہ ان حملوں سے پاکستان اور امریکا میں کشیدگی پیدا ہورہی ہے۔

واشنگٹن: کل بروز جمعہ چھ دسمبر کو امریکی کانگریس کے رکن اسٹیو شابوٹ نے کہا کہ ڈرون حملے اس خطے میں متبادل ذریعہ ہیں اور ان کا استعمال دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری رہے گا۔

اسٹیو شابوٹ جو امریکی ایوان کی ذیلی کمیٹی برائے ایشیا اور بحرالکاہل کے سربراہ ہیں، اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ امریکا اور پاکستان کو چاہیٔے کہ وہ اپنے دور رس تعلقات کو برقرار رکھیں، اس لیے کہ ایسا کرنا دونوں ملکوں کے یکساں مفاد میں ہے۔ ریپبلیکن پارٹی کے رکن کانگریس، بیس سے زیادہ اراکین کانگریس میں سے ایک تھے، جنہوں نے پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹروں کے ایک ایڈوکیسی گروپ کے زیراہتمام ہل پر منعقدہ دن بھر جاری رہنے والے اجلاس میں شرکت کی۔

اس اجلاس کا بنیادی مقصد امریکا میں غیر ملکی ڈاکٹروں کے لیے حصولِ تعلیم، تربیت اور کام کرنے کے لیے آسانی پیدا کرنے والے ایک اصلاحاتی بل کی حمایت تھا۔

اگرچہ اس پروگرام کے انتظامی سربراہ ڈاکٹر طلحہ صدیقی نے سیاسی بات چیت کی حوصلہ شکنی کی تھی، لیکن تقریباً تمام امریکی قانون سازوں نے اتار چڑھاؤ کے شکار پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے بارے میں ہی تقریر کی۔

رکن کانگریس اسٹیو شابوٹ نے اس تبصرے سے اتفاق کیا کہ ڈرون حملوں کی وجہ سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہورہی ہے اور انہوں نے دونوں ملکوں پر زور دیا کہ وہ غلط فہمیاں دور کر کے اپنے تعلقات کو بہتر بنائیں۔

انہوں نے دونوں ملکوں پر اس حوالےسے بھی زور دیا کہ ”ہم ہر ممکن کوشش کرکے نادانستگی میں ہونے والے نقصانات مثلاً ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں پر قابو پاسکتے ہیں۔ لیکن ایسے دہشت گرد جو عام شہریوں کا سہارا لے کر خود کو پوشیدہ رکھتے ہیں، بھی ایسی ہلاکتوں کے لیے ذمہ دار ہیں۔“

رکن کانگریس ایڈ رائس جو خارجہ امور سے متعلق ایوان کی ایک طاقتور کمیٹی کے سربراہ ہیں، نے بھی پاکستان کے ساتھ دور رس اور مضبوط تعلقات کی حمایت کی اور انہوں نے ایسی حوصلہ افزاء اصلاحات کا وعدہ کیا جو ملک میں جمہوریت کو مزید قوت بخشے گی۔

ایمی بیرا، ایسے رکن کانگریس ہیں، جن کے والدین ہندوستان سے امریکا آئے تھے، انہوں نے کہا کہ امریکا کو جنوبی ایشیا میں استحکام کے لیے کام کرتے رہنا چاہئیے، خاص طور پر 2014ء میں افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کو جنوبی ایشائی ملکوں کے درمیان بہتر تجارتی تعلقات کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئیے، اور ان کو اپنی توانائی کی ضروریات پورا کرنے میں مدد بھی دینی چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ ”توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے ہمیں عملی طور پر پاکستان کی مدد اور اس کی اقتصادی ترقی میں اس کی حمایت کرنی چاہئیے۔“

ایمی بیرا نے افغانستان میں موجود امریکی اور نیٹو افواج کے لیے نقل و حمل کے راستوں کو کھولنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

کانگریس کے رکن اینڈرے کارسن، کیتھ ایلیسن کے بعد دوسرے مسلم فرد ہیں جو امریکی کانگریس کے رکن منتخب ہوئے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے جزوی انخلاء کا جو منصوبہ بنایا گیا ہے، اس سے امریکا کے لیے پاکستان کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔

اینڈرے کارسن نے حوالہ دیا کہ جیسا کہ امریکا نے دیکھا کہ اس کی جنگی کوششیں افغانستان میں زائل ہوگئیں، تو اس کو چاہئیے کہ وہ اس جنگ سے تباہ حال ملک میں استحکام لانے کے لیے پڑوسی اقوام کے کاموں کی حوصلہ افزائی کرے۔

امریکی کانگریس کی خاتون رکن ٹیمی ڈک ورتھ جو امریکی فوج کی سابقہ پائلٹ ہیں، وہ عراق میں تعیناتی کے دوران شدید زخمی ہوگئی تھیں، انہوں نے کہا کہ ”افغانستان میں امریکا کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار علاقائی ملکوں کے ساتھ اس کے تعلقات پر ہوگا۔

اگر امریکا اپنے مفادات پر جارحانہ انداز میں دباؤ ڈالے گا، تو ہم اپنے کچھ اہم تعلقات کو خطرے میں ڈال دیں گے۔

رکن کانگریس کرس وین ہولین جو 1959ء کے دوران کراچی میں پیدا ہوئے تھے، نے کہا ”یہ ایک سنگین غلطی ہوگی، اگر امریکا آج پاک افغان خطے کو اسی طرح چھوڑ دیتا ہے، جیسے سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کیا تھا۔“

انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مختلف معاملات پر اختلافات موجود ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ”ان اختلافات کے باوجود یہ تعلقات کو جاری رکھنا ضروری ہے۔“ تقریباً تمام اراکین کانگریس جنہوں نے اس اجتماع سے خطاب کیا، ایسوسی ایشن آف فزیشن آف پاکستانی ڈیسنٹ آف نارتھ امریکا (اپنا) کی جانب سے امریکی فزیشن اکیسز ایکٹ کی اصلاح کے بل کی حمایت کی تائید کی۔

”اپنا“ شمالی امریکا میں پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم ہے، اصلاحاتی بل کے لیے لابنگ کررہی ہے، اس لیے کہ وہ چاہتی ہے کہ غیرملکی ڈاکٹروں کی امیگریشن پر پابندیاں ختم ہوسکیں۔