ناکافی اقدامات
ہمارے ملک میں اور دیگر معاملات کی طرح اگر ارادے اچھے بھی ہوں تو کامیابی کے امکانات کم ہوتے ہیں کیونکہ نہ تو ہم ان کوششوں کو سراہتے ہیں اور نہ ہی انہیں آگے پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں-
زندگی کے چند شعبوں کو لیجیئے جو لوگوں کی زندگی کو براہ راست متاثر کرتے ہیں اور جہاں زندگی کے جملہ حقائق سے دوری واضح طور پر نظر آتی ہے-
سب سے پہلے تو تعلیم کے شعبے کو لیجئے- ایک طرف تو اسکول اور یونیورسٹیاں ہیں، جن میں سے زیادہ تر پرائیوٹ ہیں، جہاں سے تعلیم مکمل کرنے والے طلباء اپنے اپنے شعبوں میں ماہرین کی حیثیت سے کام کرتے اور شائد جیسا کہ آپ اکثر سوچتے ہونگے ریکارڈ قائم کرتے ہیں-
ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں، لیکن تازہ ترین مثال یہ ہے: ستمبر میں ہارون طارق نے، جو اسلام آباد کے فروئبل انٹرنیشنل اسکول کا طالب علم ہے'او' اور 'اے' لیول کے امتحانوں میں 47 'ایز' حاصل کر کے عالمی ریکارڈ توڑ دیا-
فارمولا سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کی اہمیت کے بارے میں آپ کی ذاتی رائے خواہ کچھ ہو لیکن طارق کی کامیابی یقیناّ ایک نمایاں کامیابی ہے- اور، جو ریکارڈ اس نے توڑا تھا، وہ او لیولز میں اس سے پہلے 28 تھا اور اسے بھی ایک پاکستانی طالب علم زوہیب اسد نے قائم کیا تھا-
بظاہر، اس کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں تعلیم کے شعبے کی ناکامیوں کے باوجود بعض اداروں میں ایسا کام ہو رہا ہوگا کہ وہاں سے اتنے اچھے طالب علم نکلتے ہیں-
اس بات کو ملک کے اندر بھی تسلیم کر لیا گیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں اعلٰی تعلیم کے شعبے کے حالات کو بہتر بنانے کے لئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن قائم کیا گیا، ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں اور فنڈز فراہم کئے گئے- فی الحال، اس مضمون کی حد تک ان تنقیدوں کو بھول جائیے جو ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے کی جانے والی اصلاحات اور اقدامات پر کی گئیں-
تاہم، ان سب باتوں کے باوجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں کوششیں ہورہی ہیں کہ لائق طلباء اپنی لیاقت کا بھرپور استعمال کرسکیں-
بظاہر حالات پرامید نظرآتے ہیں لیکن جو لوگ پاکستتان کے حالات کی تھوڑی بہت بھی جانکاری رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ حقیقت کچھ اور ہے-
1970 کی قومیانے کی پالیسی کے نتیجے میں تعلیم کے شعبے کا جو کباڑا ہوا اور اس کے بعد 1980 کی دہائ میں (اور بہت سے علاقوں مثلا خیبر پختونخواہ میں جو آج تک جاری ہے) تعلیمی نصاب میں جو تبدیلیاں کی جا رہی ہیں 'اچھی' تعلیم اب زیادہ تر وہی لوگ حاصل کر سکتے ہیں جو اس کے مصارف برداشت کرسکیں-
اعلیٰ معیار کے حامل ایسے پرائیویٹ اسکول موجود ہیں جو ذہین طلباء کے لئے بنیاد فراہم کرسکتے ہیں اور دوسری طرف سرکاری اسکول ہیں جن کی حالت ابتر ہے-
گھوسٹ ٹیچروں کی افسوس ناک داستانیں ہیں (جو حکومت سے تنخواہیں تو لیتے ہیں لیکن پڑھانے کی زحمت نہیں کرتے)، غیر معیاری یا نیم تعلیم یافتہ (خواہ نیک نیت ہوں) اساتذہ ہیں اور بہت سے اسکولوں میں توبنیادی سہولتیں تک موجود نہیں مثلا ٹوائلٹ اور لائبریری وغیرہ-
درجنوں اسکولوں میں معیار تعلیم اتنا پست ہے کہ بچے نہ تو پڑھنا جانتے ہیں اور نہ ہی لکھنا؛ چند سال پہلے ایجوکیشن ایمرجنسی کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع ہوئ تھی جس نے کھلبلی مچادی-
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چھہ سال سے سولہ سال تک کے اسکول جانے والے بچوں میں سے صرف 35 فیصد کہانی پڑھ سکتے ہیں، جب کہ 50 فیصد بچے ایک جملہ تک نہیں پڑھ سکتے؛ ایک اندازے کے مطابق تیس ہزار اسکولوں کی عمارتوں کی حالت انتہائی مخدوش تھیں، جب کہ اکیس ہزار اسکول عمارتوں سے محروم تھے-
اور ان تمام تلخ حقائق کے بعد یہ افسوس ناک اعداد و شمار کہ کتنے بچے واقعی اسکول جا پاتے ہیں: اسی رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ چھبیس ممالک پاکستان سے زیادہ غریب ہیں لیکن وہ زیادہ بڑی تعداد میں بچوں کو اسکول بھیجتے ہیں، جب کہ دنیا بھر میں اسکول نہ جانے والے ہر دس بچوں میں سے ایک بچہ پاکستانی ہے-
اس تفریق کی وجہ کیا ہے اس کے لئے کسی دماغی ورزش کی ضرورت نہیں- آخر طلباء اعلیٰ تعلیمی اداروں کی بڑھتی ہوئ تعداد اور فنڈنگ کے مزید وسائل سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب کہ انھیں معیاری تعلیم کی بنیادی سہولتیں حاصل نہیں؟
کیا تیسرے درجے کی ڈگریوں کے حصول سے آگے چل کر بہت فائدے ہونگے جب کہ پرائمری لیول کی سطح پر جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے وہ انتہائی نا کافی ہے؟ کیا فوری طور پر ایک جامع پالیسی کی ضرورت نہیں تاکہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی طرح نچلی سطح کا تعلیمی شعبہ بھی منظم طور پر ترقی کرے؟
ایک اور تفریق جو واضح طور پر نظر آتی ہے وہ میڈیسن ہے- اس ملک میں جو ڈاکٹرز بنتے ہیں وہ دنیا کے بڑے بڑے ڈاکٹروں کا مقابلہ کرسکتے ہیں- اگرچہ بہت سے ڈاکٹر بہتر ذرائع معاش کی تلاش میں ملک سے باہر جا چکے ہیں لیکن بہت سے یہیں رہتے اور کام کرتے ہیں- یہ لوگ پرائیوٹ اسپتالوں میں کام کرکے روزی روٹی کماتے ہیں اور سرکاری اسپتالوں میں بھی کام کرتے ہیں جہاں ان کی شدید ضرورت ہے-
ملک میں اعلیٰ درجے کے ماہرین اور سرجنوں وغیرہ کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے جس کا مطلب یہ ہونا چاہیئے کہ طبی نگہداشت کا معیار عموما اچھا ہے-لیکن ایسا نہیں ہے- فنڈنگ، انفرا اسٹرکچر اور سرکاری شعبہ میں صحت کی نگہداشت کے معاملات تو افسوس ناک ہیں ہی لیکن بہت سے لوگ جو مہنگے پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کرواتے ہیں وہ بھی لاپرواہیوں اور بے مروتی کی داستانیں سناتے ہیں-
عموماً بلا تخصیص و امتیاز، اعلیٰ سطح کے میڈیکل اسٹاف مثلا سرجنوں یا ماہرین اور نچلے درجے کے نرسنگ اسٹاف کے درمیان، جو دیکھ بھال کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہیں شدید تفریق پائ جاتی ہے-
میڈیکل اسکولوں میں عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ جو لوگ ڈاکٹر بننے کی حیثیت نہیں رکھتے، یعنی جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں نرس یا میڈیکل اٹینڈنٹ بن جاتے ہیں-
میڈیکل کالجوں میں دی جانے والی تعلیم کے معیار اور نرسنگ کالجوں کے درمیان جو فرق ہے وہ بھی قابل ذکر ہے، یعنی یہ کہ یہاں ڈاکٹروں کی تنخواہوں پر کتنی رقم صرف کی جاتی ہے اور سپورٹ اسٹاف پر کتنی-
دونوں کے درمیان فرق جاننے کے لیئے کسی اعلیٰ ذہانت کی ضرورت نہیں- لیکن برس ہا برس گزرنے کے باوجود، حکومتوں کی تبدیلیوں کے باوجود مسائل وہیں کے وہیں ہیں، نہ ہی کوئ سبق سیکھا گیا ہے؛ نیم دلی سے کیئے جانے والے اقدمات سے کچھ حاصل نہیں ہوگا- نمایاں بہتری اسی وقت آئیگی جب پورے نظام کو بحیثیت مجموعی ایک مربوط نظام کے طور پر سدھارنے کی کوشش کی جائیگی-
ترجمہ: سیدہ صالحہ