دنیا

تھائی لینڈ: مظاہرین کا فوج سے حکومت گرانے کا مطالبہ

مظاہرین نے احتجاج کے دوران فوجی ہیڈ کوارٹر کے دروازے کھول دیے اور فوج سے مطالبہ کیا کہ وہ حکومت گرانے میں ان کی مدد کرے۔

بینکاک: تھائی لینڈ کے اپوزیشن مظاہرین نے حکومت گرانے کی مہم تیز کرتے ہوئے جمعہ کو فوج کے ہیڈ کوارٹر پر دھاوا بولنے کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم ینگ لک شناواترا کے پارٹی دفتر کا بھی محاصر کر لیا۔

پرعزم مظاہرین نے 2010 کے مظاہروں کے بعد گزشتہ کچھ دہائیوں کے دوران ملکی تاریخ کے سب سے بڑے مظاہرے کے دوران بنکاک میں متعدد اہم حکومتی عمارتوں کو نشانہ بنایا۔

ہزاروں کی تعداد کے حامل اس مظاہرے میں شاہی گھرانے اور شہری آبادی کے اعلیٰ طبقے نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی جہاں وہ سابق سربراہ تھاکسن شناورتا کے خلاف متحد ہو کر اپنی نفرت کا اظہار کر رہےتھے۔

ٹیلی کام انڈسٹری کے ٹائیکون ملک کے سابق متنازع سربراہ کو 2006 میں بغاوت کے بعد ہٹا دیا گیا تھا اور اب وہ خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں تاہم ابھی بھی ان کو وزیر اعظم اور ان کی بہن ینگ لک کی حکومت کے پیچھے موجود سب سے طاقتور شخصیت قرار دیا جاتا ہے۔

مظاہرین نے تھاکسن کے دور کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے وہ موجودہ حکومت کی جگہ ایک غیر منتخب عوامی کونسل لانا چاہتے ہیں۔

تھائی لینڈ کے ایک ماہر اور آستریلین نیشنل یونیورسٹی کے پروفیسر نے بتایا کہ مظاہرین اور ان کے رہنماؤں کا اصل مقصد تباہی کرنا اور افرا تفری پھیلانا تھا تاکہ فوج مداخلت کر کے حکومت سے اقتدار لے لے۔

مظاہرین نے احتجاج کے دوران بنکاک میں بزور طاقت فوجی ہیڈ کوارٹر کے دروازے کھول دیے اور فوج سے مطالبہ کیا کہ وہ حکومت گرانے میں ان کی مدد کرے۔

مظاہرین نے کئی گھنٹوں تک جھنڈوں کے ہمراہ آرمی کمپاؤنڈ میں واقع لان میں مظاہرہ کیا جس کے بعد وہ رضاکارانہ طور پر منتشر ہو گئے۔

مظاہرین کے ایک رہنما نے کہا کہ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں آیا فوج ایک آمر کے خلاف ہمارے ساتھ کھڑی ہے یا نہیں۔

مظاہرے کے چند گھنٹے بعد آرمی چیف پرایتھ چین نے مظاہرین سے پرامن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے زور دیا کہ وہ قانون کے تحت جمہوری نظام کا احترام کریں۔

واضح رہے کہ ماضی میں ملکی اقتدار کے سلسلے میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے جہاں جنرل روایتی طور پر بادشاہت کے دفاع میں پیش پیش رہے ہیں۔

تاہم متعدد ماہرین کا ماننا ہے کہ فوج 2010 میں ہونے والی مظاہروں میں خونی تصادم کی وجہ سے حالیہ تنازع میں حکومت یا حزب اختلاف میں سے کسی کا بھی ساتھ دینے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔

دوسری جانب وزیر اعظم ینگ لک نے جمعہ کو ہونے والے مظاہرے کے بعد پیر کو تمام اہم شہروں کی اسپیشل سیکیورٹی کے اقدامات کرنے کی ہدایات کر دی ہیں۔